لوہے کی جالی والی قبر کے حوالے سے بھارتی میڈیا کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ بے نقاب ، قبر بھارتی ریاست حیدرآباد دکن کی نکلی

334

اسلام آباد۔1مئی (اے پی پی):سوشل میڈیا پر لوہے کی جالی والی قبر کی وائرل ہونے والی تصویر کے حوالے سے بھارتی میڈیا کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ بے نقاب ہو گیا، لوہے کی جالی والی قبر بھارتی ریاست حیدرآباد دکن کی نکلی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی میڈیا تالے بند لوہے کی جالی والی قبر کی وائرل تصویر کو پاکستان میں خواتین کی لاشوں کی بےحرمتی( نیکروفیلیا ) کیسز سے جوڑ رہا ہے ، بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تصویر اس بات کی ایک مثال ہے کہ پاکستان میں مائیں اپنی بیٹیوں کی قبروں کو کس طرح جالی میں تالہ لگا کر بند کر دیتی ہیں تاکہ بے حرمتی سے روکا جاسکے ۔

بھارت میں ایک خبر رساں ایجنسی اے این آئی ڈیجیٹل نے وائرل تصویر کے ساتھ مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا کہ پاکستانی والدین بے حرمتی سے بچانے کے لئے بیٹیوں کی قبروں کو تالہ بند کر دیتے ہیں جسے بعد میں بھارت کے کئی بڑے میڈیا اداروں نے جھوٹی رپورٹ کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ٹائمز آف انڈیا، ٹی او آئی، این ڈی ٹی وی، مرر ناؤ، دی پرنٹ، انڈیا ٹوڈے، ویون، انڈیا ٹی وی، ٹائمز ناؤ، ڈی این اے انڈیا، اوپی انڈیا ہندی، نیوز 24، اے بی پی نیوز، امر اجالا، نیوز 18، فرسٹ پوسٹ اور جاگرن ان ذرائع ابلاغ میں شامل تھے جنہوں نے اپنی رپورٹس میں اس تصویر کو استعمال کیا۔ کتاب ’دی کرس آف گاڈ – کیوں میں نے اسلام چھوڑا‘ کے مصنف حارث سلطان نے اسی تصویر کو ٹویٹ کیا اور دعویٰ کیا کہ اسے پاکستان میں کلک کیا گیا تھا۔جہاد واچ کے ڈائریکٹر رابرٹ اسپینسر نے اس تصویر کو ٹوئٹ کیا جس کے کیپشن کے ساتھ لکھا ہے کہ پاکستان: والدین مردہ بیٹیوں کی قبروں پر تالے لگاتے ہیں تاکہ بے حرمتی کو روکا جا سکے۔

تاہم، حقائق کی جانچ کرنے والی خصوصی نیوز ویب سائٹ آلٹ نیوزکے مطابق ذرائع ابلاغ کے ذریعے استعمال کی گئی تصویر دراصل حیدرآباد دکن کے ایک قبرستان کی تھی۔ قبرستان دراب جنگ کالونی، مدنا پیٹ، حیدرآباد میں واقع مسجد ای سالار ملک کے سامنے واقع ہے۔ ذیل میں قبرستان کے گوگل اسٹریٹ ویو کی ایک تصویر ہے جہاں تالے بند قبر واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔آلٹ نیوز کے مطابق اس نے عبدالجلیل نامی ایک سماجی کارکن سے رابطہ کیا جو حیدرآباد کا رہائشی ہے۔ درخواست کرنے پر اس نے جائے وقوعہ کا دورہ کرایا اور ہمیں زیربحث قبر کی تصاویر فراہم کیں۔جلیل نے مسجد ای سالار الملک کے مؤذن مختار سے بات کی ۔

مختار صاحب نے کہا کہ تالے بند قبر جو کہ تقریباً ڈیڑھ سے دو سال پرانی تھی، متعلقہ کمیٹی کی اجازت کے بغیر تعمیر کی گئی۔ یہ داخلی دروازے کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ آٹھ دن تک مسجد کمیٹی کے ارکان کے درمیان یہ مسئلہ زیر بحث رہا۔مئوزن مختار نے قبر پر جالی لگانے کی وجہ بتاتے ہوئے مختار کوبتایا کہ یہاں بہت سے لوگ آتے ہیں اور بغیر اجازت پرانی قبروں پر لاشیں دفن کرتے ہیں۔ اس لئے ایک شخص نے اس قبر پر جنگلا بنایا تھا تاکہ اس قبر میں اور میتیں مزید دفن کرنے سے روکا جا سکے مئوزن مختارب نے اس کی تردید کہ یہ قبر پاکستان کی ہے۔ آلٹ نیوز نے ایک مقامی رہائشی سے بھی بات کی جس کا گھر مسجد کے قریب ہے جس نے بتایا کہ یہ قبر ایک بوڑھی عورت کی ہے جو ستر کی دہائی میں فوت ہو چکی تھی۔ اس کے بیٹے نے اسے دفن کیے جانے کے تقریباً 40 دن بعد قبر پر جنگلا بنایا تھا تاکہ اس قبر میں اور میتیں مزید دفن کرنے سے روکا جا سکے