تحریر:بشریٰ سردار
اسلام آباد۔10مئی (اے پی پی):ماحولیاتی تغیرات کے گندم اور دیگر فصلوں پر اثرات، حقائق اور حکومتی اقدامات پاکستان کے زرعی مرکز کے وسیع و عریض علاقوں میں جہاں گندم کے سنہرے کھیت ہلکی ہوا میں جھوم رہے ہیں، وہیں ان سنہرے کھیتو ں کے سروں پر ماحولیاتی تغیرات کا ایک خاموش خطرہ منڈلا رہا ہے۔
جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو موسموں کی شدت بھی بڑھ رہی ہے، جس کے باعث کسانوں، سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کوبہت سے چیلنجزکا سامنا ہے۔گندم، جو کہ پاکستان کی زرعی معیشت کا سنگ بنیاد ہے اور اس کی آبادی کے لیے ایک اہم خوراک ہے، خاص طور پر ماحولیاتی تغیرات کے منفی اثرات اس کے لیے خطرناک ہے۔ گرم آب و ہوا اور بے وقت کی بارشیں روایتی بڑھتے ہوئے حالات کو بدل دیتی ہے، اس نازک توازن میں خلل ڈالتی ہے جس کے اندر گندم پروان چڑھتی ہے۔
اس کے اثرات پورے زرعی ماحولیاتی نظام میں پھیلتے ہیں، جس سے غذائی تحفظ، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی استحکام کو اہم خطرات لاحق ہیں۔اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے کلائمیٹ ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹیٹیوٹ( سی ای ڈبلیو آر آئی ) اور نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر ( این اے آر سی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بشیر احمد نے کہا کہ ماحولیاتی تغیرات ہماری میجر اور مینو(کراپس) فصلوں پر 5سے15فیصد تک اثر انداز ہوتے ہیں، جن میں ایک براہ راست اثرات ہوتے ہیں جیسا کہ جب زیادہ بارشیں یا درجہ حرارت میں اضافہ ہوتو اس سے نئی نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں، دوسرا بلاواسطہ اثرات ہوتے ہیں کیونکہ زراعت کے لئے ہمارا 70فیصد پانی گلیشیئر اور برف کے پگھلنے سے آتا ہے اور گلوبل وامنگ کے باعث گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تغیرانسانی ترقی کے باعث جو مضر صحت گیسیں یا جی ایس جی امیشن بہت زیادہ ہورہی ہیں یہ گلوبل وارمنگ کا موجب بن رہی ہیں ۔دوسری وجہ جنگلات کو تیزی سے ختم کرناہے کیونکہ درخت سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں ۔ ان سب چیزوں کے اثرات موسم پر پڑتے ہیں جس سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے براہ راست اور بلاواسطہ اثرات ہیں۔ اس سے گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، بارشوں کے سیزن میں تبدیلی آرہی ہے۔برفباری کم ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایک ڈگری درجہ حرارت بڑھتا ہے تو نہ صرف ہمارے بلکہ ایچ کے ایچ ریجن کے گلیشیئر تقریبا 35 فیصد تک پگھل جاتے ہیں اور اگردو ڈگری درجہ حرارت بڑھتا ہے توتقریبا 64فیصد گلیشیئر پگھلے گا، اس سے ایریگیشن کی سپلائی بھی متاثرہو گی جس سے زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔رواں سال گندم کے سیزن میں ہونے والی بارشوں کے کافی منفی اثرات ہوئے ہیں تاہم ابھی تک اس کے اعدادوشمار کا تخمینہ نہیں لگایا گیا لیکن مختلف اسسمنٹ کے مطابق بارشوں نے 8تا12فیصد تک گندم کی فصل کو متاثر کیا ہے۔
بارشوں کی وجہ سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن اگر گندم کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ پنجاب ہے، سندھ میں گندم کی کٹائی جلدی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں پر فصل زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔ خیبر پختونخوا بارشوں سے بہت متاثر ہوا ہے لیکن اس کے گندم والے علاقے اتنے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت میں زراعت کا شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور جب جب زراعت میں بہتری آئی ہے تو اس سے ہماری معیشت بھی بہتر ہوئی ہے اور جب زراعت کا شعبہ متاثر ہوا ہے تو اس کا ہماری معیشت پر بھی برااثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہماری دھان کی فصل ( چاول) بہتر ہوئی تھی جس سے ہمیں ایک بلین ڈالرکا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا۔
ماحولیاتی تغیرات : نئی ٹیکنالوجیز
ماحولیاتی تغیرات کے باعث پیدا ہونے والے حالات ہمیں نئی اختراہوں کے استعمال کی جانب مائل کرتے ہیں ۔نئی ٹیکنالوجیز کو نہ صرف اپنانا بہت ضروری بلکہ اس سلسلے میں ریسرچ اور انوویشن کے جانب پیش رفت پر بھرپور توجہ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے ۔اس سلسلے میں جب سوال کیا گیا تو ڈاکٹر بشیر احمد کا کہنا تھا کہ زراعت پر ماحولیاتی تغیرات کے حوالے سے ہمارا ادارہ کام کر رہا ہے،ہم نے نئی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے مختلف تجربات کئے ہیں ،
جس میں رسپونسو ڈرپ ایریگیشن ہے جو امریکی ٹیکنالوجی یا سسٹم ہے اس کو پودوں کی جڑوں میں بچھایا جاتا ہے جس سے 80فیصد پانی کی بچت کے ساتھ پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ چین کی نیونو ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جارہی ہے اس کو بھی پودوں کی جڑوں کے نیچے بچھایا جاتا ہے یہ بھی پانی کی بچت اور پیداوار میں اضافے کے لئے مفید ہے۔ ان ٹیکنالوجی کو بلوچستان کے علاقوں ، تھر ، چولستان میں استعمال کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں پر زور دے رہے ہیںکہ وہ ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کریں، اس کے علاوہ ہم نے دھان کی دو ایسی قسمیں متعارف کروائی ہیں جو کم پانی لیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مین فوکس رین فڈ ایگریکلچر(جو پانی کے لئے بارش پر انحصار کرے) پر ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسی طرح سولر واٹر پمپنگ متعارف کروائی تھی جس میں ایک فیکس سولر واٹر پمپنگ ہے پھر پی اے آر سی نے پورٹ ایبل سولر واٹر پمپنگ متعارف کروائی جو کافی مقبول ہوئی ، تیسری ری جنریٹو ایگریکلچر بھی متعارف کروائی ہے جس سے بغیر ہل چلائے فصل کاشت کی جاتی ہے، جس سے پانی اور کھادکی بچت ہوتی ہے اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
اس کے بعد ہائی ٹیک ایگریکلچر کی بات کی جائے تو اس میں ٹنل فارمنگ، ہائیڈو فارمنگ پر ٹرائل چل رہے ہیں اور کچھ پراگریسو فارمز اس کو استعمال کر رہے ہیں ۔
حکومتی ا قدامات :کسانوں کے لئے ٹریننگ پروگرام
انہوں نے کہا کہ ہم مختلف ٹریننگ پروگرام کے ذریعے کسانوں کو نئی ٹیکنالوجیز بارے بتاتے ہیں ، پہلے ہم فارمرز کو این اے آر سی یا پی اے آر سی کے سٹیشنز پر لے کر آتے تھے لیکن اب ہم کچھ فامز منتخب کرتے ہیں اور پھر وہاں اس ٹیکنالوجی کو لگا کر فارمر کو ٹرین کیا جاتا ہے بعد ازاں اس پائلٹ فارم پر اس علاقے کے فارمرز کو لایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر احسان الحق انسٹی ٹیوٹ آف پلانٹ اینڈ انوائرمینٹل پروٹیکشن نے فصلوں کے ضرر رساں کیڑوں اور دوست کیٹروں پر ماحولیاتی تغیرات کے اثرات کے حوالے سے بتایا کہ جب درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے تو ان حشرات کا لائف سائیکل شروع ہو جاتا ہے پہلے جو ان کی نسلیں سال میں 12ہوتی تھیں وہ اب 13یا 14ہو چائیں گی یا اس سے بھی بڑھ جائیں گی،
جس سے فصلوں کو نقصان ہو گااسی طرح درجہ حرارت کے اضافے سے دوست کیڑوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے جس سے بھی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ ماحولیاتی تغیرات کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے باعث نئے نئے کیڑے بھی آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ماحولیاتی تغیرات کے خطرات نہ صرف پاکستان کے زرعی شعبے کو بلکہ اس کی اقتصادی بنیاد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ پھر بھی، مشکلات کے منڈلاتے سائے کے درمیان پاکستان اس سے نمٹنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے، یہ کوششیں امید کی کرن کے طور پر کام کرتی ہیں، جو قوم کی خوشحالی اور ماحولیاتی توازن کے مستقبل کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=464582