26.5 C
Islamabad
اتوار, مئی 11, 2025
ہومقومی خبریںماحولیات سے متعلق مسائل کے حل کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت...

ماحولیات سے متعلق مسائل کے حل کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، شیری رحمان

- Advertisement -

اسلام آباد۔6جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ قدرتی ماحول اور آب و ہوا کے انحطاط کی بڑی وجہ جاری انسانی سرگرمیاں ہیں، ماحولیات سے متعلق مسائل کے حل کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز کے زیر اہتمام عالمی یوم ماحولیات 2022 ویبینار میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ماحول کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہے، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی ہمارے ماحول میں تبدیلی کے تین اہم محرک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ماحول اور آب و ہوا کی تباہی ایک ہزار سال سے جاری انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے۔ رواں سال ملک کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ ملک کے ماحول کو کئی طریقوں سے خراب کیا جا رہا ہے، ان میں سے ایک سمندری آلودگی ہے۔ پاکستان میں 2020 میں 3.9 ملین ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوا جس میں سے صرف 30 فیصد کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔

- Advertisement -

ہم سالانہ 65,000 میٹرک ٹن اضافی پلاسٹک فضلہ درآمد کرتے ہیں جسے مقامی مینوفیکچررز مصنوعات تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے مطابق دریائے سندھ 10,000 میٹرک ٹن مائیکرو پلاسٹک بحیرہ عرب میں لے جاتا ہے۔ یہ پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلے، سیوریج سمیت دیگر فضلہ ہیں۔ دریائے سندھ جو کبھی حیاتیاتی تنوع سے مالا مال تھا اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں اور دیگر جانوروں کے لیے قدرتی افزائش کا سامان مہیا کرتا تھا، اب تیزی سے نمکین ہوتا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈیلٹا میں کل 14,000 مینگرووز کو محفوظ بنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب انڈس ڈولفن دریائے سندھ میں آزادانہ طور پر تیرتی تھیں۔پاکستان کے میری ٹائم زون کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون تقریباً 240,000 مربع کلومیٹر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جہاز رانی، تجارتی ماہی گیری، اور تیل، گیس اور معدنی ترقی کی سمیت وسائل کی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے سمندری ماحولیاتی نظام پر توجہ نہیں دیتے۔ ‘بلیو اکانومی’ کا تصور ایک زیادہ جامع وژن فراہم کرتا ہے جو معاشی ترقی کی بھی ضمانت دیتا ہے ۔

معیشت کے فروغ سے انسانی بہبود، سماجی مساوات اور ماحولیاتی استحکام کی راہ ہموار ہو گی۔ سمندروں اور ساحلوں سے متعلق تمام معاشی سرگرمیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ماہی گیری سے لے کر قابل تجدید سمندری توانائی سمیت ساحلی سیاحت تک مطلوبہ تبدیلیاں صرف قوانین اور پالیسیوں سے نہیں آتیں، یہ ایک مجموعی کاوش ہونی چاہیے جہاں تمام شراکت دار مل کر کام کریں۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ہم اس حد تک نہیں پہنچے ہیں جس کے بعد ہمارے ماحول کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پانا ناممکن ہو جائے، اس لیے اب عمل کرنے کا صحیح وقت ہے۔

ہمیں سول سوسائٹی، نجی شعبے اور سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے دس غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے، ہمارے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، دریائے سندھ جو کہ دریائی نظام کا گڑھ ہے اور ہمارے زرعی شعبے کا 90% حصہ فراہم کرتا ہے تیزی سے خشک ہو رہا ہے، یہ صورتحال اجتماعی کوششوں کا تقاضا کرتی ہے۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=310933

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں