34.4 C
Islamabad
پیر, اپریل 21, 2025
ہومقومی خبریںمالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آرکو 384 ارب روپے...

مالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آرکو 384 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کاسامنا ہے،جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکسوں کا تناسب مالی سال کی دوسرے سہ ماہی میں بڑھ کر 10.8 فیصد ہو گیا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ

- Advertisement -

اسلام آباد۔30جنوری (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بتایا گیا ہے مالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر کو 384 ارب روپے کے ریونیوشارٹ فال کا سامنا ہے، ایف بی آر نے 5624 ارب روپے محصولات جمع کی ہے جو کہ ہدف 6008 ارب روپے سے کم ہے، جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکسوں کا تناسب مالی سال کی دوسرے سہ ماہی میں بڑھ کر 10.8 فیصد ہو گیا۔ وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس فارم کو آسان بنانے اور کسٹمز میں فیس لیس سسٹم کے ذریعے شفافیت لانے جیسے اقدامات کئے گئے ہیں۔ سینیٹ سیکرٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو یہاں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزیرخزانہ و محصولات سینیٹرمحمداورنگزیب، سینیٹر شیری رحمان، منظور احمد، سید شبلی فراز، فیصل واوڈا، فاروق حمید نائیک، محسن عزیز،چیئرمین ایف بی آر، سیکرٹری خزانہ اور دیگرمتعلقہ حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں مالیاتی پالیسیوں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کا رکردگی اور خریداری کے طریقہ کا ر پر غور کیا گیا۔اجلاس میں ایف بی آر کے افسران کی تربیتی پروگراموں کا جائزہ لیاگیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے تربیتی پروگراموں کی افادیت سے متعلق سوال کیا۔

- Advertisement -

کمیٹی نے ان پروگراموں کے نتائج بارے تفصیلات طلب کیں جس پر سیکریٹری خزانہ امداداللہ بوسال نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ جامع تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔اجلاس کے دوران کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کو 384 ارب روپے کے ریونیوشارٹ فال کا سامنا ہے۔ ایف بی آر نے 5624 ارب روپے محصولات جمع کی ہے جو کہ ہدف 6008 ارب روپے سے کم ہے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکسوں کا تناسب مالی سال کی دوسرے سہ ماہی میں بڑھ کر 10.8 فیصد ہو گیا، پہلی سہ ماہی میں یہ تناسب 9.5 فیصد تھا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ یہ تناسب ابھی بھی آئی ایم ایف کے طے شدہ 13.6 فیصد کے ہدف سے کم ہے۔ بھارت میں مجموعی قومی پیداوارکے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 18 فیصد ہے۔سینیٹر مانڈوی والا نے ایف بی آر کی سیلز ٹیکس وصولی کے طریقہ کا ر پر تشویش ظاہرکی اور کہاکہ ہم نے کئی بار ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ اشیاء پر سیلز ٹیکس وصول کرے لیکن ایف بی آر کے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس فارم کو آسان بنانے اور کسٹمز میں فیس لیس سسٹم کے ذریعے شفافیت لانے جیسے اقدامات کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت آئندہ مالی سال میں ٹیکس پالیسی کو ایف بی آرسے الگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس فارم کو سادہ اور آسان بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 60سے لیکر70فیصد تک تنخواہ دارطبقہ سپر ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتا۔اجلاس میں ایف بی آر کی جانب سے 1,010 گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے خریداری کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا کہ جس کمپنی کو آرڈر دیا گیا تھا، اس پر چھاپہ مارا گیا تھا۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ایف بی آر افسران نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں اور ملوث افراد کی نشاندہی بھی کی۔ ان سنگین الزامات کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطح پرتحقیقات کی جائیں گی اور جو بھی اس میں ملوث ہوگا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کمیٹی کو سفارش کی کہ یہ معاملہ مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کو بھیجا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک خریداری کے عمل کا مکمل جائزہ نہیں لیا جاتا،اس وقت تک گاڑیوں کی خریداری کا عمل روک دیا جائے گا۔سینیٹر مانڈوی والا نے خریداری کے عمل میں شفافیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پیپرا بورڈ کو گاڑیوں کی خریداری کا جائزہ لینا چاہیے۔ اجلاس میں کا ربن ٹیکس متعارف کرانے کے امکان پر بھی تبادلہ خیال کیا، جس کی تجویز سینیٹر شیری رحمان نے دی۔ وزیر خزانہ نے عالمی بینک کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا حوالہ دیا جس میں موسمیاتی تبدیلی اور کا ربن سے متعلق مسائل شامل ہیں تاہم سینیٹر فاروق ایچ نائیک سمیت بعض ارکان نے کاربن ٹیکس کے مہنگائی پر اثرات اور غریب طبقے پر اس کے بوجھ پر تحفظات کا اظہار کیا۔وزیرخزانہ کمیٹی کو بتایا کہ کیپٹیو پاور پلانٹ کے لیے گیس کی قیمت 3500 روپے مقرر کر دی گئی ہے اور گزشتہ سال 5600 صنعتی یونٹس میں سے 1,100 یونٹس نے اپنے آپریشنز میں توسیع کی ہے۔

کمیٹی نے ٹیکس دہندگان پر انتظامی بوجھ کم کرنے اور ٹیکس وصولی کو موثر اور منصفانہ بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔کمیٹی نے گاڑیوں کی خریداری سمیت متعدد معاملات کو ایف آئی اے کے حوالے کرنے کی سفارش کی۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=554040

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں