اسلام آباد۔28اپریل (اے پی پی):ماہرین نے عالمی ماحولیاتی اہداف اور قومی اقتصادی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی صنعتی ترقی کو زیادہ پائیدار بنانے کے لئےسٹیل کے شعبے میں ڈی کاربنائزیشن اور توانائی کی کارکردگی میں اصلاحات کی اشد ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ بات انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام، ڈنمارک کے سفارتخانے اور ڈنمارک توانائی ایجنسی کے تعاون سے منعقدہ ورکشاپ میں کہی۔ ڈنمارک کے سفیر ایچ ای جیکب لنولف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ثقافت، حسن اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی اب صرف ایک امکان نہیں بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے حقیقت بن چکی ہے اور پاکستان کے پاس سورج، ہوا اور پانی جیسے قدرتی وسائل ہیں جنہیں اب بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا وقت آ چکا ہے۔
نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (نیئیکا) کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار محذم نے پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان کاروباری شراکت داریوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مقامی صنعتوں کو توانائی کی کارکردگی کے جدید ماڈلز میں تبدیل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ اور جدید مالیاتی طریقوں کا استعمال ضروری ہوگا تاکہ صنعتی چیلنجز کا موثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ایس ڈی پی آئی کے توانائی کے ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ توانائی کی منتقلی صرف ایک پالیسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اقتصادی ترقی کےلئے ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرسٹیل کی صنعت میں ڈی کاربنائزیشن اور توانائی کی کارکردگی میں بہتری نہ لائی گئی تو یہ صنعت پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے ایک بوجھ بن سکتی ہے۔
ڈنمارک کے توانائی ماہر نادیب نواز نے ڈنمارک کے توانائی کے شعبے میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ڈنمارک نے اپنی توانائی کا 63 فیصد ہوا اور سورج سے حاصل کر لیا ہے، ان کی توانائی کی حکمت عملی سیاسی اتفاق رائے اور علاقائی توانائی کے نیٹ ورک پر مبنی ہے جس سے پاکستان کے لئے توانائی کی منتقلی کے راستے پر عمل کرنے کا ایک واضح نمونہ فراہم ہوتا ہے۔سینئر ٹیکنیکل ماہر فریڈولن ہوم نے پاکستان کے سٹیل سیکٹر میں توانائی کے استعمال پر ایک تفصیلی کیس سٹڈی پیش کی ۔ورلڈ بینک کے توانائی ماہر و قاص ادریس نے کہا کہ توانائی کی کارکردگی اور ڈی کاربنائزیشن اب صرف اختیاری نہیں رہیں بلکہ یہ مستقبل کی تجارتی مسابقت کے لئے مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ایس ڈی پی آئی کی صالحہ قریشی نے پاکستان کے صنعتی شعبے میں ایک جامع ڈی کاربنائزیشن منصوبے کی کمی کو اجاگر کیا اور کہا کہ آنے والے قومی توانائی اہداف میں اس بات کو شامل کیا جانا چاہئے کہ کس طرح توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور کاربن کے اخراج میں کمی کی جائے۔
گلوبل چینج امپیکٹ سٹڈیز سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عارف گوہیر نے کہا کہ موجودہ گرین ہائوس گیس انوینٹریاں زیادہ تر توانائی، زراعت اور جنگلات پر مرکوز ہیں جبکہ صنعتی شعبے کے ڈیٹا میں کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی توانائی کی پالیسیوں کو بہتر بنانے کےلئے صنعتی ڈیٹا کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ ابو بکر اسماعیل نے پاکستان کے سٹیل سیکٹر کے کم کاربن فٹ پرنٹ کا ذکر کیا اور خبردار کیا کہ اقتصادی عدم استحکام اور سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے نئی توانائی بچانے والی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ آ رہی ہے۔وزارت تجارت کے ڈاکٹر نبیل امین نے پاکستان کی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں (ایس ایم ایز) کو قومی تعمیلی فریم ورک میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ انہیں ماحولیاتی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی دینا ضروری ہے۔پاکستان-جرمنی کلائمیٹ اینڈ انرجی پارٹنرشپ کی مشیر صوبیہ بیکر نے قومی صنعت کے اخراجات کے لیے ایک مربوط ڈیش بورڈ کے قیام پر زور دیا
اور کہا کہ توانائی کی منتقلی کو کامیاب بنانے کے لئے مضبوط رپورٹنگ اور قیمتوں کے تعین کی ضرورت ہے۔پروفیسر افتخار احمد نے انڈسٹری 4.0 ٹیکنالوجیز کے کردار پر زور دیا اور کہا کہ یہ ٹیکنالوجیز توانائی کے انتظام میں بہتری اور اسٹیل کے آپریشنز میں انسانی غلطیوں کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=589063