ماہی گیر گجہ جال جیسے ممنوعہ جالوں کے استعمال کو ختم کریں ،یہ سمندری حیات کی افزائش کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، قیصر احمد شیخ

92
ماہی گیر گجہ جال جیسے ممنوعہ جالوں کے استعمال کو ختم کریں ،یہ سمندری حیات کی افزائش کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، قیصر احمد شیخ

اسلام آباد۔17جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر احمد شیخ نے پاکستان میں آبی زراعت کے شعبے میں موجود بے پناہ مواقع کے غیر مستعمل رہنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی 1,100 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور 240,000 مربع کلومیٹر کے خصوصی اقتصادی زون جیسے قیمتی وسائل کو مؤثر انداز میں بروئے کار لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان سے ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں منعقدہ نیشنل ورکشاپ آن دی پروموشن آف ایکوا کلچر ان پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور پاکستان کو بھی آبی زراعت جیسے اہم شعبے پر بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے اس شعبے کو درپیش رکاوٹوں جن میں پیچیدہ قوانین، روایتی طریقہ کار اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی شامل ہیں، کی نشاندہی کی اور بین الاقوامی معیار کے مطابق حفظان صحت اور سلامتی کے اصولوں پر عملدرآمد کو ناگزیر قرار دیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ جیسے ممالک نے پاکستان کی سمندری خوراک کی برآمدات پر اعتراضات اٹھائے ہیں جنہیں حل کئے بغیر عالمی منڈی تک رسائی ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر نے سندھ کے ماہی گیروں سے اپیل کی کہ وہ گجہ جال جیسے ممنوعہ جالوں کے استعمال کو ختم کریں کیونکہ یہ سمندری حیات کی افزائش کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

انہوں نے قوانین کو آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کے بجائے کاروبار کی طرف راغب ہونے کی ترغیب دی۔ورکشاپ میں ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ افراد، فیڈ ملرز، غیر سرکاری تنظیموں اور حکومتی اداروں نے شرکت کی۔

اس موقع پر شرکاء نے آبی زراعت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور سمندری خوراک کی برآمدات کو بڑھانے کے لئے تجاویز پیش کیں۔ اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ ماہی گیری کا شعبہ، جو پاکستان کی جی ڈی پی میں 0.31 فیصد حصہ ڈالتا ہے، نہ صرف غذائی تحفظ بلکہ ساحلی کمیونٹیز کے لئے روزگار فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، مالی سال 2024 کے دوران مچھلی کی مجموعی پیداوار 7,20,900 میٹرک ٹن رہی، جس میں سے 4,10,900 میٹرک ٹن سمندری ماہی گیری سے حاصل ہوا۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ سعودی سرمایہ کاروں اور امریکی نمائندوں کے ساتھ آبی زراعت میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔

انہوں نے پاکستان کی عالمی تجارت میں محدود 0.5 فیصد حصہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سمندری وسائل کے وسیع امکانات کے باوجود ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں، کورنگی میں فش پروسیسنگ پلانٹس کے قیام کے لئے سستی زمین فراہم کرنے جیسے اقدامات کا اعلان بھی کیا گیا۔ ورکشاپ کے اختتام پر تمام متعلقہ فریقین پر زور دیا گیا کہ وہ آبی زراعت کے شعبے کو عالمی معیار کی صنعت میں تبدیل کرنے کے لئے مشترکہ طور پر کام کریں۔