متاثرین سیلاب کو مختلف بیماریوں، رہائش اور خوراک کے چیلنجز درپیش ہیں ، تعمیرنو کےلئے زیادہ امداد کی ضرورت ہے ، کوآرڈینیٹر وفاقی ٹیکس محتسب

117

اسلام آباد۔3اکتوبر (اے پی پی):وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ سیلاب کے بعد کی صورتحال پریشان کن ہے ،بے گھر افراد، جو اس وقت عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، انہیں ڈینگی بخار، ملیریا اور ڈائریا کا سامنا ہے۔ متاثرین سیلاب کے لئے رہائش اور خوراک کے چیلنجز بھی در پیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 33 ملین افراد، جو برطانیہ کی نصف آبادی کے برابر ہیں، متاثر ہوئے ہیں ۔

سوموار کو کالج آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ”سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو“ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہواہے، دو ماہ کے دوران 1700 سے زائد شہریوں کی اموات اور 1.8 ملین گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ اب جب کہ آخر کار پانی کم ہونا شروع ہو رہا ہے اور عالمی برادری بھی اس طرف متوجہ ہو رہی ہے، تباہی کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب تو گزر گیا مگر اس کی جو حقیقی جسمانی، معاشی، سماجی اور نفسیاتی قیمت ادا کرنا ہو گی اس کا تعین ابھی ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے ”دوسری آفت“ سے خبردار کیا ہے کیونکہ پانی سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس ان سے دیگر بیماریاں پھیلتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے گھر افراد، جو اس وقت عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، انہیں ڈینگی بخار، ملیریا اور ڈائریا کا سامنا ہے۔ اس فوری خطرے کے علاوہ رہائش اور خوراک کے چیلنجز بھی در پیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 33 ملین افراد، جو برطانیہ کی نصف آبادی کے برابر ہیں، متاثر ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ سے پانی کو مکمل طور پر نکلنے میں کئی ماہ لگیں گے۔ زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے، اور بڑی تعداد میں مویشی ہلاک ہو گئے ہیں، سڑکیں اور ریلوے لائنیں بہہ گئی ہیں۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ جسمانی اور نفسیاتی بحالی کے لیے محض تعمیراتی سامان اور خوراک فراہم کرنے سے بھی زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم آبادی کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ ان کا مکمل علم نہ ہو جائے اور اس کا تدارک کرنے کا جذبہ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ دورہ سندھ کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا تھا کہ انہوں نے ایسا ”ماحولیاتی قتل عام“ کبھی نہیں دیکھا تھا اور خبردار کیا کہ اس طرح کی مزید بہت سی آفات آسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم کے جائزہ سے معلوم ہوا ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے بارشوں کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔ صرف اس سال کے دوران ملک کو پہلے ہی شدید گرمی کی لہر، جنگلات کی آگ اور خشک سالی کا سامنا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تباہی کا غیر متناسب طور پر ترقی پذیر ممالک کو سامنا رہے گا جن کا عالمی حرارت میں حصہ کم سے کم ہے۔

جیسا کہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد انصاف کا معاملہ ہے، سخاوت کا نہیں۔ اب تک غیر ملکی حکومتوں نے بحالی کے لیے درکار تخمینہ 30 بلین ڈالر کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کا وعدہ کیا ہے جبکہ پاکستان پہلے ہی شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ اس لئے انہیں تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے انہیں ان کے اپنے کاربن اخراج کے نتائج سے نمٹنے کے لیے اور مستقبل میں آنے والی آفات کے مقابلہ کی تیاری کے لیے کمزور ممالک کو زیادہ مالی امداد فراہم کرنی چاہیے۔