محسن نقوی۔۔۔ شاعر اہلِ بیت

1336
Mohsin Naqvi
Mohsin Naqvi

لاہور۔15جنوری (اے پی پی):محسن نقوی کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک شاعر انھوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اِسی نام سے مشہور ہو گئے۔ محسن نقوی 5، مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔انھوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔

بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انھیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہل بیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔
اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟
ان کی تصانیف میں بند قبا،عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب ،ریزہ حرف ، موج ادراک اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُن کی شاعری اُنہیں ان سب حیثیتوں میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل گو تھے، مگر اُن کی نظمیں بھی داد سمیٹتی رہیں۔محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔

ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ نثر مین بھی ملکہ رکھتے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے جا چکے ہیں۔

محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا – 1994ء میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
استاد نصرت فتح علی خان نے محسن نقوی کی غزل ” کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا، تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا‘‘ بہت خُوب صورتی سے گائی، جس پر اُنھیں برطانیہ میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ محسن نقوی نے فلم ساز، سردار بھٹی کی فرمائش پر فلم ” بازارِ حُسن” کے لیے ایک گیت ” لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ تحریر کیا، جس پر اُنہیں’’ نیشنل فلم ایوارڈ‘‘ ملا۔
محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔

ان کی پہچان اہل بیتِ محمدﷺکی شان میں کی گئی شاعری بنی۔محسن نقوی نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کوبھی ایک نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انھوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے۔ انھوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔محسن نقوی کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔

انھوں نے اپنی شاعری صرف الف لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انھوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی ۔
قتل چُھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ…اب تو کُھلنے لگے مقتل، بَھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چِھن جانے پہ افسوس نہ کر…سَر سلامت نہیں رہتے، یہاں دستار کے بیچ