محکمہ جنگلی حیات نے گدھ کی اہمیت پر مبنی معلوماتی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی

274
محکمہ جنگلی حیات

لاہور۔18ستمبر (اے پی پی):سیکرٹری جنگلات،جنگلی حیات و ماہی پروری پنجاب مدثر وحید ملک کی خصوصی ہدایت پر محکمہ ڈائریکٹر جنرل جنگلی حیات وپارکس پنجاب مبین الہی کی قیادت میں صوبہ میں جنگلی حیات کے تحفظ و فروغ کے سلسلے میں ایکس سیچو کنزرویشن اور ان سیچو کنزرویشن پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور محکمہ کی انہی کاوشوں کے تناظر میں صوبہ کے عوام کو جنگلی حیات کی اہمیت و افادیت پر مبنی معلوماتی مواد کی فراہمی کیلئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر عام لوگوں کو اس امر کی آگاہی حاصل ہو۔

ایسی ہی ایک کاوش کے سلسلے میں محکمہ کے شعبہ نشرواشاعت نے گدھ کی اہمیت پر مبنی معلوماتی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی ہے،چھ منٹ دورانیے پر مشتمل اس وڈیو میں بتایا گیا ہے کہ گدھ ایک ایسا پرندہ ہے جو مردار خوری کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت رکھتا ہے۔ گدھ جن مردہ جانوروں کو کھاتا ہے وہ پانی اور فضا کے ذریعے انسانوں میں مختلف اقسام کی جان لیوا بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ماہرین ماحول اور زندگی کے لائف سائیکل میں گدھوں کی اہمیت اور کردار پر روشنی اس طرح ڈالتے ہیں کہ انسانی زندگی کا بڑی حد تک انحصار فطرت پر ہے اور انسان جنگلی جانوروں اور پیڑ پودوں کے ساتھ بقائے باہمی کے طور پر زندہ رہتا ہے۔ پاکستان میں گدھ بہت تیزی سے کم ہو چکے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کے قدرتی مسکن کی تباہی، موسمیاتی تبدیلی اور مویشیوں میں درد کو کم کرنے والی ایک دوا Diclofenacکا عام استعمال ہے۔

قدرتی ماحول اور پرندوں کی ناپید ہوتی ہوئی نسلوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی بعض ملکی و بین الاقوامی تنظیموں نے تحقیق کے بعد Diclofenacکو پاکستان، بھارت اور نیپال میں گِدھ کی تعداد میں تشویش ناک کمی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مویشیوں میں اس کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور 2006 میں اگرچہ پاکستان اور نیپال میں اس دوا پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن یہ امر باعث تشویش ہے کہ حکومتی پابندی کے باوجود یہ دوا عام دستیاب ہے اور دیہات و دور درازعلاقوں کے لوگ آج بھی اس دوا کو استعمال کر رہے ہیں جس سے گِدھ کی آبادی معدومیت کے خطرے سے دو چار ہوچکی۔

پاکستان گدھ کی انواع کو تحفظ دینے والی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں کے شانہ بشانہ vulture-conservation کے مختلف پراجیکٹس میں شریک کار ہے اور اس ضمن میں ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان اور محکمہ تحفظ جنگلی حیات و پارکس پنجاب، انوائرنمنٹل ایجینسی ابو ظہبی اوردی ہاک کنزروینسی ٹرسٹ برطانیہ کے باہمی اشتراک سے 2007 سے لاہور سے اسی کلو میٹر دور چھانگا مانگا جنگل میں قائم ایک ولچر کنزرویشن سنٹر میں کام کر رہے ہیں اور اس سنٹر میں مارچ 2017 سے افزائش نسل کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

تاہم ضرورت اس امر کی ہے عوام بھی حکومت اور دیگر کنزرویشن ایجنسیوں کے شانہ بشانہ پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دو چار گدھ کی انواع کو تحفظ و فروغ دینے کیلئے اپنا انفرادی و اجتماعی کردار بھر پور انداز سے ادا کریں تاکہ فطرت کے یہ خاکروب کرہ ارض پر اپنا ماحولیاتی کردار ادا کرسکیں۔