اسلام آباد۔8دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ مریم صفدر اور مولانا فضل الرحمان تو ممبر پارلیمنٹ نہیں ہیں ان کی ڈیمانڈ پر پارلیمنٹرین کبھی استعفی نہیں دیں گے‘ پاکستان جمہوری ملک ہے اس میں جمہوری حکومت کوجمہوری انداز سے ہی ہٹایا جاسکتا ہے، اس کے لئے آئینی مدت مکمل ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا ‘تاریخ گواہ ہے کہ جلسے جلوسوں سے کوئی حکومت نہیں گری‘ اگرکوئی حکومت چلی بھی گئی تو جلسے جلوس کرنے والوں کو کچھ بھی نہیں ملا ‘عدالت سے بھاگے ہوئے شخص کی صاحبزادی ہمیں دھمکیاں دے رہیں ہے‘ مولانا فضل الرحمان نے پوری سیاست میں اسلام کی کیا خدمت کی‘ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہوتے ہوئے اس مسئلے کے لئے کیا کی؟ا‘ عمران خان نے دنیا میں مسئلہ کشمیر کو زندہ کیا ‘ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو مدلل انداز میں اٹھایا‘ اپوزیشن جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لئے ہر غیر جمہوری طریقہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہیں ‘ سیاسی پناہ گزینوںکا مقصد اقتدار میں کاروبار کے لئے آنا ہے ۔ وہ منگل کو معاون خصوصی امور نوجوانان عثمان ڈار کے ہمراہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے ۔وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت کی جانب سے میڈیا کے شکر گذار ہیں جو کوویڈ 19 کی دوسری لہر کو بہتر انداز سے اجاگر کر رہی ہے ‘ہم نے پہلی لہر کو کامیابی سے شکست دی ‘ حکومت نے ایک حکمت عملی کے ذریعے روزگار اور جانوں کا تحفظ یقینی بنایا ‘ کرونا کی دوسری لہر پہلی سے زیادہ شدید ہے ‘ تعلیمی اداروں ‘شادی ہالز ‘ ریسٹورنٹس میں مختلف پابندیاں لگائیں ‘ این سی او سی ڈیٹا کے تجزیے کے بعد سفارشات دیں جس پر حکومت نے عمل درآمد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے ‘ آکسیجن بیڈز کا استعمال بڑھ رہا ہے ‘اگر اسی طرح وائرس پھیلتا رہا تو حکومت کو مزید سخت پابندیاں لگانی پڑیں گی اس کے اثرات کاروبار اور معیشت پر بھی پڑھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اس وائرس کو محدود کر سکتے ہیں کیونکہ سردی کے موسم میں اس کے شکار ہونے کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پشاور ہسپتال میں آکسیجن کمی واقعہ کے بعد تمام صوبوں کو ہدایت دی گئی ہے وہ ضلعی ہیڈکوارٹرز کی سطح پر آکسیجن کا ذخیرہ کریں اور ضرورت پر فوری استعمال میں لائیں ‘ 200ٹن فیکٹری کی پیداوار شروع ہوجائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے درخواست ہے کہ وہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کو سنجیدہ لیں ‘ ماسک کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن غیر ذمہ داری اور بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے ناٹک کر رہی ہے ‘ یہ ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے ‘ وہ لوگ جن کا عوام کے لئے کوئی ایجنڈا نہیں ہے ‘پچھلے 11سال سے حکمرانی کر رہے تھے ‘ نتائج ان کی مرضی کے نہیں ہوئے تو دو سال خاموش رہنے کے بعد اب انھیں خیال آیا کہ الیکشن 2018 میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن اور اسکے نتائج کسی کی منشاءاور مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتے ‘ عدلیہ کے جو فیصلے حق میں ہو وہ ٹھیک اور نہ خلاف ہوں وہ غلط ہیں ‘اپوزیشن چیزوں کو مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتی ‘ مولانا فضل الرحمان الیکشن ہار جائیں تو غلط اور بیٹا الیکشن جیت جائے تو الیکشن ٹھیک ہے‘ اسی طرح سندھ حکومت کا بھی یہ ہی موقف ہے ‘ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی ناپختہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جمہوریت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی بناتی ہے ‘ہماری اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت کو گھر بھیجیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کی لوٹ مار‘ قبضہ اور کرپشن بند ہوچکی ہے اس لئے یہ تڑپ رہے ہیں ‘ان کی حکومتوں کے دوران اقربا پروری ‘سفارش اور رشوت کی بنیاد پر نوکریاں دیں ‘ اہل لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا‘ان ادوران میں صرف انہی کے کاروبار کو فروغ ملا ‘ ملک غریب سے غریب تر ہوتا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو نہیں ملک کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ ان دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنائے اور پیٹھ پر چھرا گھومتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مریم صفدر کہتی ہیں جو استعفی نہیں دیں گے ان کے گھروں کا گھیرائو کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں جو حضورﷺ کی ناموس کے تحفظ کے لئے قرراداد منظور کرائی ‘ ماضی میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ‘ آزادی اظہار رائے کی تشریح پر ہم نے زور دیا ‘ یہ ہماری سفارتکاری کی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مسائل کو حل ‘ آٹا ‘چینی اور اجناس کی قیمتیں کم کر رہے ہیں ‘معاشی اشاریوں میں بہتر ی آئی ‘ رواں سال جون سے قرض نہیں بڑھا ‘ سمینٹ ‘ کنسٹریشن ‘ گاڑیاں ‘موٹر سائیکلوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔ وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ دو بڑے ڈیم ‘نئے دو شہر بنانے جارہے ہیں‘ دنیا میں کورونا کی وجہ سے ملکوں کی معیشتیں تباہ ہوئی ہیں ‘ہمسایہ ملک بھارت کی معیشت کی حالت دیکھیں تو اس میں ہم بہت بہتر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز افغان حکومت نے وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ کی روشنی میں انکی قیادت میں پالیسیوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لئے ہر غیر جمہوری طریقہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے پارلمینٹ میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولا ‘ انکے سمدھی بھی پاکستان سے بھاگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا لیڈر عمران خان خود دیانتدار ہیں وہ خود کرپشن کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی کرپشن کو برداشت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت ملکر بھر کے عوام سے اپیل ہے کہ وہ جھوٹے ‘مکار اور ٹھگوں کے فریب میں نہ آئیں ‘ ان سے دور رہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی اپوزیشن ملکی مسائل ‘ حکومتی پالیسیز پر تنقیدکرتی ہے ‘ مفاد عامہ پر حکومت کا ساتھ دیتی ہے لیکن ہماری اپوزیشن پہلے دوسال پروڈکشن آڈرز پر اجتجاج کرتی رہی ‘ یہ چاہتے کہ نیب کے قانون کو فیٹف کے قانون سے منسلک کیا ‘34شقوں کی تبدیلی کرنا چاہی لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں کرونا وائرس کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا تو اپوزیشن نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا یہ تو عوامی نوعیت کا معاملہ تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف‘ زرداری ‘ پیپلز پارٹی ذاتی مسائل کی وجہ سے نیب کو مانتے ہی نہیں ‘ یہ خیال ان کو دوسال پہلے کیوں نہیں آیا ‘ جب ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوتیں ہیں تو انھیں یہ کچھ یاد آتیں ہیں ‘ پیپلز پارٹی کے سینٹ میں اٹھائے جانے والے ایجنڈے میں حکومتی سینیٹر حصہ نہیں بنیں گے ‘ یہ ایوان زریں ہیں 1974سے اب تک کی رولنگ کو دیکھی جارہی ہے‘ ایسی چیز کو ہر گز سپورٹ نہیں کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے ریاستی اداروں میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کر کے اداروں کو بیٹھا دیا گیا ‘ ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی وی کو اسی عظمتوں پر لیکر جائیں جو ماضی میں تھا ‘اس کے لئے مختلف پلانز پر کام کرہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے میں تبادلے معمول کی بات ہے ‘ کسی کو جبری نہیں نکال رہے لیکن جس کی جہاں ضرورت ہوگی اسے وہاں لیجایا جائےگا ‘رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر انھیں طے شدہ مراعات ملیں گی ۔وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ استعفی دینا بہت آسان اور الیکشن بہت مشکل ہے جو الیکشن لڑتے ہیں یہ وہ ہی جانتے ہیں ‘ ان کے اندر اتنی مخالفت ہے ‘اس معاملے پر تقسیم ہیں۔