اسلام آباد۔6اکتوبر (اے پی پی):وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ذاتی سلامتی قومی سلامتی سے زیادہ عزیز ہے، شریف خاندان اداروں پر الزام تراشی کے ذریعے چھپنا چاہتا ہے، شریف خاندان لندن فلیٹس کے ذرائع آج تک نہیں بتا سکا، مریم نواز عدالت میں قطری خط کے سوا کچھ نہیں پیش کر سکیں، مریم نواز اداروں کے خلاف مہم چلا رہی ہیں، نیب آرڈیننس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ جتنا وقت ان کو عدالت میں ملا اس دوران یہ سوائے قطری خط اور جعلی کیلبری فونٹ کے کچھ نہیں لے کر آئے، اب مریم نواز ملک کے اداروں پر الزامات لگا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے ہی کہا تھا کہ میری لندن میں کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے، اس کے بعد 3 مارچ 2016ء کو حسین نواز میڈیا پر کہتے ہیں کہ یہ فلیٹس ہمارے ہیں اور ان کی بینیفشل آنر مریم نواز ہیں، اب جب فلیٹس لینے کے ذرائع بتانے ہیں، سپریم کورٹ موقع دیتا ہے تو وہاں یہ قطری خط اور جعلی ٹرسٹ ڈیڈ لے جاتے ہیں، 7 ماہ سپریم کورٹ کیس سنتی ہے، 3 ماہ جے آئی ٹی میں کیس سنا جاتا ہے، اس کے بعد ایک سال اور تین ماہ ٹرائل کورٹ کیس سنتی ہے لیکن یہ ان کو فلیٹس لینے کے ذرائع کے حوالے سے مطمئن نہیں کر پاتے، جس کے بعد نواز شریف کو 10 سال اور مریم نواز کو 7 سال سزا ہوئی، اس کے بعد اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کے باوجود تین سال میں ایک دن بھی اس اپیل کو انہوں نے میرٹ پر نہیں چلایا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو ذاتی سلامتی قومی سلامتی سے زیادہ عزیز ہے، جب بھی ان کا احتساب کیا جاتا ہے تو یہ اداروں پر تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں، مریم نواز اداروں کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز پاکستان کے کسی سیکورٹی ادارے نے نہیں نکالے تھے، نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیاں کسی ادارے نے نہیں بلکہ شریف خاندان نے خود بنائی تھیں، لندن کے فلیٹس کسی ادارے نے نہیں بلکہ شریف خاندان نے خود خریدے تھے لہذا اگر یہ لوگ آج اگر کہتے ہیں کہ کسی ادارے کے پولیٹیکل انجینئرنگ کر لی تو ان کے بیان میں کوئی جان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا اگر بس چلے تو یہ نیب کو تالا لگا دے، یہ لوگ نیب ترامیم کے حوالے سے جو 34 شقیں لے کر آئے تھے وہ نیب کو تالا لگانے کے مترادف ہی تھیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ نیب آرڈیننس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے، آرڈیننس کے ذریعے جو قانون لایا جاتا ہے وہ بھی پارلیمنٹ میں جاتا ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جاتی ہے، سپیکر اسمبلی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے جس میں 6 حکومتی اور 6 اپوزیشن اراکین شامل ہوں گے، اس کے علاوہ جب تک مشاورت مکمل نہیں ہوتی اس وقت تک وہی چیئرمین نیب رہیں گے تاکہ نیب غیر فعال نہ ہو۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اختیارات ایک ادارے سے نکال کر دوسرے ادارے کو دے رہے ہیں، ٹیکس سے متعلق معاملات ایف بی آر دیکھے گا، کسی بزنس مین کا ادارہ یا کمپنی کا کوئی معاملہ ہے تو اس کو ایس ای سی پی دیکھے گا، اسی طرح جو معاملہ ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آتا ہے اس کو ایف آئی اے دیکھے گا تاکہ نیب اپنے اصل کام پر فوکس کر سکے۔