مشکل ترین مرحلہ گذر چکا ہے، چیف اکانومسٹ سٹیٹ بینک کی یقین دہانی

149
اسٹیٹ بینک

اسلام آباد۔27اگست (اے پی پی):بینک دولت پاکستان(ایس بی پی) کے چیف اکانومسٹ اور ریسرچ ایڈوائزر ڈاکٹر علی چوہدری نے کہا ہے کہ مشکل ترین مرحلہ اب گذر چکا ہے، پچھلے دو برسوں سے پاکستان کی مجموعی نمو دو ہندسوں میں ہے، معیشت اوورہیٹنگ کررہی تھی اور اس سے نمٹنے کے لیے سٹیٹ بینک کو بہت تیزی سے پالیسی ریٹ میں 8 فیصد اضافہ کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس اقدام کا دیگر ممالک سے موازنہ کریں تو سٹیٹ بینک نے بہت مختصر وقت میں قدم اٹھایا۔

انہوں نے اس امر کو اجاگر کیا کہ احساسات اور معیشت پر اعتماد کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور زری پالیسی بیان میں بھی اس پر زور دیا گیا ہے اور یہ کہ آئی ایم ایف پروگرام ہماری پالیسیوں پر اعتماد کو مضبوط کرے گا جو پاکستان کی معیشت پر اعتبار کا ایک اشارہ ہے اور اس طریقے سے ہمیں ایکسچینج ریٹ کے محاذ پر بھی استحکام نظر آئے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایس بی پی پوڈکاسٹ سیریز کی قسط نمبر 8 میں اینکر پرسن کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔

اس قسط کا تعلق زیادہ تر ان پیمانوں سے تھا جن سے پالیسی ریٹ کے بارے میں فیصلوں پر غور کرتے وقت اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نمٹتی ہے۔ چیف اکانومسٹ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ آیا پچھلے سال ستمبر سے اب تک سٹیٹ بینک کے فیصلوں سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔پالیسی ریٹ کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلہ ایم پی سی کے اراکین کرتے ہیں جن کی تعداد اوسطاً دس ارکان تک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا یہ کمیٹی تین بیرونی ماہرین معاشیات، بورڈ کے تین ممبران اور سٹیٹ بینک کے تین اندرونی ارکان اور گورنر سٹیٹ بینک پرمشتمل ہوتی ہے۔ سٹیٹ بینک کی ٹیم کی جانب سےتازہ ترین معاشی اظہاریوں اور معیشت کے امکانات کے متعلق شعبہ جاتی منظرنامے کے بارے میں پریزینٹیشنوں پر تفصیلی غوروخوض کے بعد زری پالیسی کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ کمیٹی اسٹیٹ بینک کے بورڈ سے الگ ہے۔ انہوں نے خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ٹیم بہت معروضی انداز میں زری پالیسی کمیٹی کے سامنے تمام حقائق اور اعدادوشمار پیش کرنے کے ساتھ اکانو میٹرک اور جنرل ایکوی لی بریم ماڈلز کے نتائج سے بھی آگاہ کرتی ہے جس میں مختصر طور پرپوری معیشت کا بہت غور سے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ زری پالیسی کمیٹی متفقہ فیصلہ کرے اور اختلاف کی صورت میں گورنر کا کاسٹنگ ووٹ ہو گا۔

چیف اکانومسٹ نے بتایا کہ ایم پی سی نے تین بنیادی وجوہات کی بنا پر توقف کرنے کا فیصلہ کیا: پہلی وجہ یہ کہ پالیسی ریٹ میں سابقہ اضافے کے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے یعنی مجموعی طلب سست ہو رہی ہے۔سیمنٹ اور آٹو انڈسٹری کے فروخت کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ معیشت میں طلب کم ہو گئی ہے۔بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) بھی سست ہورہی ہے۔

پالیسی ریٹ میں وقفہ لینے کی دوسری وجہ سیلاب کے اثرات تھے جن کا ہمیں ابھی تک درست علم نہیں ہے لیکن اس سیلاب کے اثرات بالآخر معاشی اظہاریوں اور نمو کو متاثر کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک معیشت پر سیلاب کے اثرات سے متعلق ابتدائی اعداد و شمار اگلے چار ہفتوں میں حاصل کر لے گااور 2010 کے سیلاب سے موازنہ کرے گا۔تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مہنگائی سے متعلق ہمارے موجودہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مہنگائی سے متعلق پیشگوئیوں پر نظر ثانی نہیں کی گئی ہے، اس لیے موجودہ مہنگائی اسٹیٹ بینک کے لیے تعجب کا باعث نہیں ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے رواں مالی سال کے لیے مہنگائی کی پیشگوئی 18 سے 20 فیصد کی شرح پر برقرار رکھی ہے۔ واضح رہے کہ زری پالیسی کمیٹی کا اگلا اجلاس چھ ہفتے بعد ہونا ہے اور امید ہے کہ اُس وقت تک معیشت کی صحیح صورت حال واضح ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ مستقبل قریب میں مہنگائی کا منظر نامہ کیا ہوگا۔ گذشتہ چند ہفتوں میں عالمی منڈیوں میں پیٹرولیم کی قیمت میں کمی ہوئی ہے، اسی طرح اجناس کی قیمتوں میں بھی قدرے کمی ہوئی ہے۔مجموعی طور پر اسٹیٹ بینک کے مہنگائی کے تخمینے جوں کے توں رہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تین وجوہات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ زری پالیسی کمیٹی نے فی الحال توقف کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ملک کے ڈیفالٹ کرنے کے حوالے سے افواہوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر علی چوہدری نے ایسی افواہوں سے اختلاف کیا اور کہا کہ اب ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ آئل کے ضمن میں پاکستان کو طلب کے دھچکے کے ساتھ رسد کے دھچکے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ تیل اور اجناس کی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی پر دباؤ کا اثر طلب کے لحاظ سے تقریباً 60 فیصد اور رسد کے لحاظ سے 40 فیصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران کیے گئے اقدامات کے اثرات اب دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ ہر چیز کی طلب سکڑ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ چونکہ اسٹیٹ بینک کا اوّلین مقصد قیمتوں میں استحکام کاحصول ہے لہٰذا یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اب اسٹیٹ بینک کا ہدف ہے کہ وسط مدت کے دوران قیمتوں میں 5 سے 7 فیصد تک استحکام لایا جائے۔

ایک اور سوال کے جواب میں چیف اکانومسٹ نے اسٹیٹ بینک کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ایس بی پی ایکٹ میں ترمیم کے بعد سٹیٹ بینک کا کام قیمتوں میں استحکام لانا ہے، تقریباً آٹھ سہ ماہیوں کے لیے مہنگائی کے حوالے سے ہمارا ہدف 5 تا 7 فیصد ہے۔ مستقبل میں جیسے ہی مہنگائی کے تخمینے میں بہتری آئے گی، اس بہتری کے ساتھ بالآخر پالیسی ریٹ کم کردیا جائے گا۔ دوسری جانب مہنگائی کی بلند سطح کاروباری افراد کی طلب کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی اتنی بلند سطح معاشی عاملین کے لیے اچھی نہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ فی الوقت پاکستان کفایت شعاری کے دور سے گذر رہا ہے اور جیسے ہی مہنگائی کے تخمینوں میں بہتری آئی، اس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ کم کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف مہنگائی کی بلند سطح طلب کو نقصان پہنچاتی ہے،اور یہ کہ کسی ایک چیز میں کمی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے،چاہے یہ آئی ایم ایف یا کسی اور وجہ سے وقوع پذیر ہو۔کفایت شعاری کے بارے میں اس سوال پر کہ آیا اس کا مطلب اخراجات میں کمی یا آمدنی کے تناسب سے خرچ کرنا ہے، ڈاکٹر چوہدری نے جواب دیا کہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: یا ہم ٹیکس بڑھائیں یا اپنے اخراجات میں کمی لائیں۔ یہ مختلف اقسام کی کفایت شعاری کی نمو کے لیے مختلف شدت ہوتی ہے۔

چند حالیہ مطالعوں کے مطابق ٹیکس عائد کرنے کی نوعیت والی کفایت شعاری کے معاشی نمو پر اثرات زیادہ ہوتے ہیں جس کا سبب اعتماد اور احساسات پر اس کا اثر ہے۔ پاکستان میں بالعموم اخراجات کی نوعیت والی کفایت شعاری کو بروئے کار لایا گیا ہے، اور اس کے اثرات کم اور بحالی تیزی سے ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں ایکسچینج ریٹ کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ اب منڈی کی حرکیات پر منحصر ہے، منڈی پر مبنی شرح مبادلہ میں یہ ہوتا ہےکہ جب ڈالر کی رسد اس کی طلب سے زیادہ ہو اور اگر منڈی کے احساسات مثبت ہوں تو پھر روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح اگر درآمدی ادائیگیاں بلند ہوں اور ڈالر کی طلب بڑھ جائے تو پھر ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگا۔