اسلام آباد ۔ 30 جون (اے پی پی) مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام اداروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اور سول اداروں کے اخراجات میں 50ارب روپے کی کمی کی جائے گی۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پسماندہ اور کمزور طبقہ کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 29سو ارب روپے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ گریڈ 20سے اوپر کے سرکاری افسران اور مسلح افواج کے جرنیلوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، محصولات کا ہدف 55سو ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جس کے وصول کے لئے سب مل کر کوشش کریں گے، عوام کی سہولت کے لئے اثاثہ جات ظاہر کرنے کی سکیم میں 3جولائی تک توسیع کی جا رہی ہے جبکہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ کا پہلا فلاحی بجٹ موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا، وزیراعظم کے وژن کے مطابق بجٹ تجاویز پر عمل کرنے کو تیار ہیں، حکومت نے معاشی اصلاحات کا ایجنڈا پارلیمنٹ سے منظور کرایا۔ وہ اتوار کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے اس موقع پر وزیر انچارج برائے خزانہ حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ درآمدات اور برآمدات میں فرق کے باعث روپیہ پر دباﺅ آیا، ہم معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 13ارب سے کم کر کے 7ارب ڈالر پر لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے بجٹ اچھے طریقے سے پاس ہوا، بجٹ کا اصل مقصد پاکستان کے عوام ہیں، حکومت کی کوشش ہے ہر چیز میں شفافیت ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قرضہ 31ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ آئندہ سال 2900ارب روپے اس قرضے پر سود کی مد میں لازمی ادا کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں روزمرہ اشیاءپر ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ باہر سے آنے والی چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قطر سے 3ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کا بورڈ 3جولائی کو 6ارب ڈالر کے پیکج کی منظوری دے گا، ایشیائی ترقیاتی بینک 3ارب 30کروڑ ڈالر دے گا جبکہ اتنی ہی رقم عالمی بینک سے بھی متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے تین سال کے لئے تین ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل ادھار پر ملے گا۔ حکومت معاشی بحران سے نکلنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، سرکلر ڈیٹ کم کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ کا اصل مقصد عوام ہیں، ہم نے ایک سے 16گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ 10فیصد بڑھائی ہے، گریڈ 17سے 21کے ملازمین کی 5فیصد تنخواہ بڑھائی ہے۔ گریڈ 20سے اوپر کے سول افسران اور جرنیلوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا یہ کفایت شعاری کا ایک پیغام ہے۔ اسی طرح وزیراعظم ہاﺅس اور بڑے سرکاری اداروں کے بجٹ کم کیے گئے، دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا جس پر ہم آرمی چیف کے شکرگزار ہیں۔ مشکل معاشی حالات میں ہم سب متحد ہو کر قربانیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر ہمیں مجبوراً بجلی کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی۔ 300یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں پر بوجھ نہ پڑے اس لئے بجلی کی سبسڈی کی مد میں 216ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو ٹیکسٹز اکٹھے ہوتے ہیں اس میں 56فیصد صوبوں کو دینے ہوتے ہیں یہ آئینی ذمہ داری ہے، پاکستان میں امیر لوگ دیگر ممالک کے مقابلے میں ٹیکسز کم دیتے ہیں۔ امیر طبقہ سے ٹیکس لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، ایف بی آر کا چیئرمین پرائیویٹ سیکٹر سے لایا گیا ہے ہم سب مل کر کوشش کریں گے کہ 5500ارب روپے کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ حاصل کریں تا کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی، تعلیم، صحت کی سہولیات دی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کو پونے 6سو ارب روپے سے بڑھا کر 925ارب روپے کیا گیا ہے، اس میں جنوبی پنجاب، بلوچستان اور فاٹا کو ترجیح دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران لوگوں نے جمہوری عمل دیکھا۔ ایوان میں بجٹ پر جس قدر بحث ہوئی اتنی ماضی میں نہیں ہوئی۔