اسلام آباد۔4جولائی (اے پی پی):وزیراعظم کی ہدایت پر بنائی گئی صنعتی پالیسی کمیٹیوں کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس جمعہ کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔اجلاس میں کمیٹی کے اراکین نے آٹھ ذیلی کمیٹیوں کی سفارشات کو حتمی شکل دی جن کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر صنعتی پالیسی کے عملدرآمد کے مرحلے کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا گیا۔
ہارون اختر خان نے بتایا کہ صنعتی شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 1996ء میں 26 فیصد تھا جو 2025ء میں کم ہوکر 18 فیصد رہ گیا ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صنعتی شعبے کی بحالی نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے برآمدات میں اضافے اور درآمدی متبادل پیدا کرنے پر زور دیا تاکہ معیشت کو استحکام دیا جا سکے۔صنعتی شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آٹھ ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔
ان کی اہم تجاویز کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان بیمار صنعتوں کی بحالی اور قرضوں کے حل کے لیے گائیڈ لائنز جاری کرے گا،کارپوریٹ ری ہیبلیٹیشن ایکٹ 2018 میں ترامیم کی تجاویز دی گئی ہیں۔بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ڈیٹا پر مبنی پیش گوئی کے نظام سے صنعتی بیماری کی ابتدائی علامات کی نشاندہی کریں۔
صنعتی یونٹس کی درجہ بندی پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن کی مشاورت سے طے کی گئی ہے۔مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کو تین سال میں 29 فیصد سے کم کرکے 26 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایس ای سی پی ایکٹ، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور انکم ٹیکس آرڈیننس میں بھی ترامیم کی سفارش کی گئی ہے۔
تیز عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے 10 نئی عملدرآمد ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں اور انہیں ایک ہفتے کے اندر ٹھوس نتائج پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔انہوں نے کہا کہ نئی صنعتی پالیسی ایک جامع پالیسی ہے جو پاکستان میں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ بنے گی۔
ہارون اختر خان نے کمیٹیوں کے قلیل وقت میں غیر معمولی کام کو سراہا اور بتایا کہ ان کی تیار کردہ سفارشات وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کر دی گئی ہیں، جنہوں نے ان پر اطمینان اور تحسین کا اظہار کیا۔