معاون خصوصی برائے کامرس عبدالرزاق داﺅد کانیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام ”کووی ٹیکس اینڈ ڈائس ٹیکس انو ویشن “کے عنوان سے کانفرنس و نمائش کی تقریب سے خطاب

135
APP73-20 FAISALABAD: March 20 - Advisor to PM for Commerce, Textile, Industry & Production and Investment of Pakistan Abdul Razak Dawood addressing during an exhibition of 4th NTU Dice Textile Innovation in National Textile University. APP photo by Tasawar Abbas

فیصل آباد 20 مارچ (اے پی پی) :وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے کامرس، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار و سرمایہ کاری عبدالرزاق داﺅد نے کہا ہے کہ ٹیکسٹائل پاکستان کی اہم ترین اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن کی ابھرتی ہوئی مشکلات کا شکار ہے لیکن مذکورہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں جدت لانے ، ویلیو ایڈیشن ، صنعتی و کاروباری شعبہ کی مشکلات کم کرنے اور گلوبل ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ بڑھانے کےلئے پالیسی وضع کر لی ہے جس کے تحت نئی ترقی پسند اصلاحات متعارف کروا کر درپیش چیلنجز سے مطابقت رکھتے ہوئے متنوع ،وسیع،ٹھوس و پائیدار اقدامات ےقینی بناتے ہوئے بہترین نتائج حاصل کئے جائیں گے لیکن چونکہ جننگ سے لے کر ٹیکسٹائل گارمنٹس کی تیاری تک پوری سیریز میں موثر ٹیکنالوجی کے زریعے بہتری لائی جائے گی جبکہ ایس ایم ای کے شعبے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی حوصلہ افزائی اور فروغ کےلئے الگ پالیسی کا اعلان کیا جائے گا ، ٹیرف پالیسی اور ڈیوٹی ڈھانچے میںبہتری کےلئے اگلے بجٹ میں مراعات کےلئے تجاویز کی تیاری شروع کر دی گئی ہے ، ٹیکسٹائل کے ساتھ ساتھ شپنگ کے شعبہ میں درپیش مسائل سے نجات اور نیشنل ٹیرف پالیسی کے تحت پیداواری لاگت میں کمی بھی ممکن بنائی جائے گی ۔ بدھ کونیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مزید جدت لانے کیلئے منعقدہ 5ویں ”کووی ٹیکس اینڈ ڈائس ٹیکس انو ویشن “کے عنوان سے منعقد ہونے والی 2روزہ کانفرنس و نمائش کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ حکومت عالمی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی ےقینی بنانے کےلئے بھی بھر پور اقدامات کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے معاشی استحکام میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو زبر دست اہمیت حاصل ہے مگر ےہ سیکٹر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل تنزلی و بحرانوں کا شکار ہے جس کے خاتمہ کو حکومت اولین ترجیح کے طور پر لے رہی ہے جس میں ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن کا مسئلہ بھی سب سے اہم ہے۔انہوںنے کہا کہ حکومت کچھ نئی اصلاحات متعارف کروا رہی ہے جن کا مقصد درپیش چیلنجز سے نمٹنا اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔انہوںنے کہا کہ اس میں جدت ،وسعت لانے کے علاوہ پائیدار و دیر پا نتائج کو بھی مد نظر رکھا جارہا ہے۔کاروباری ضروریات ،بزنس کے تقاضوں اور کاروبار کرنے کے ضمن میں آسانیوں کے حوالے سے انہوںنے کہا کہ دنیا بھر کے کاروباری ممالک کی درجہ بندی میں بزنس کے حوالے سے ہم 147سے 136ویں نمبر پر آ گئے ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کو پہلے 100ممالک کی صف میں لایا جائے جس کےلئے سنجیدگی سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ کچھ ٹیرف حکومت پہلے ہی تسلیم کر چکی ہے جبکہ باقی ٹیرف بالخصوص خام مال کی درآمد کے حوالے سے ڈیوٹیز میںکمی کےلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ عبدالرزاق داﺅد نے کہا کہ ےہ امر باعث تشویش ہے کہ ہماری اکثر جننگ فیکٹریاں ایسی پرانی اور غیر موثر مشینری استعمال کر رہی ہیں جو 1950میں تیار کی گئی تھی جبکہ دنیا بھر کا جننگ سیکٹر سٹیٹ آف دی آرٹ جدید ترین مشینری استعمال کر رہا ہے۔انہوںنے ےہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان میں اس وقت ایک ہزار کے قریب جننگ ےونٹس کام کر رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں آسٹریلیا میں صرف 28جننگ فیکٹریاں ہیں مگر ان کی پرفارمنس پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے اکثر جنرز کپاس کی خرید و فروخت کا کام کر رہے ہیںجن کےلئے ہماری کوشش ہے کہ ہم ایسے بڑے اور سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی سے آراستہ جننگ ےونٹ قائم کریں جو گلوبل مارکیٹ اور اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔ انہوںنے کہا کہ حکومت جنرز کو انتظامی معاونت کے ساتھ ساتھ مالی سپورٹ بھی فراہم کرے گی۔ عبدالرزاق داﺅد نے کہا کہ اوسطاً ہمارے سپننگ ےونٹس 39ہزار سپنڈلز پر مشتمل ہیں اسلئے حکومت سپننگ ےونٹس کے مالکان کو خصوصی مراعات و سہولیات اور مالی تعاون فراہم کرے گی تاکہ وہ اپنی کارکردگی بڑھانے کےلئے جدید مشینری نصب کر سکیں۔انہوںنے کہا کہ 1969ءکی پاور لومز جو دنیا بھر میں متروک ہو چکی ہیں ہم آج بھی انہیں کے ذریعے کام چلا رہے ہیں جن سے دنیا کا مقابلہ ممکن نہیں لہٰذا پاور لومز مالکان کو بھی اپنی گنجائش ، پیداوار اور رفتار بڑھانے کےلئے نئی و جدید پاور لومز نصب کرنا ہوں گی۔ انہوںنے بتایا کہ اس سیکٹر کو اقوام عالم کے ہم پلہ لانے کےلئے تین آپشنز زیر غور ہیں جن میں پہلا لیٹ دیم ڈ ائی ، دوسرا انہیں مصنوعی زندگی کا عمل جاری رکھنے کےلئے سبسڈی کی فراہمی اور تیسرا پرانی ، دقیا نوسی و فرسودہ اور متروک مشینری کو تبدیل کرنے اور ان کی جگہ زبردست کارکردگی کی حامل جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مشینیں نصب کرنے کےلئے مالی مدد فراہم کرنا ہے۔انہوںنے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ پاور لومز سیکٹر کو مرنے سے بچانے اور اسے زندہ رکھنے کے لئے اس کی بھر پور معاونت کی جائے تاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو فروغ حاصل ہو ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں ٹیکسٹائل کے ساتھ ساتھ شپنگ کے شعبہ میں درپیش مسائل سے بھی نمٹنا ہو گا۔ عبدالرزاق داﺅد نے مزید کہا کہ ٹیکسٹائل ٹیرف دیگر ہمسایہ ممالک کے برابر لینے کے باوجود پرانی مشینری استعمال کی جار ہی ہے جسے ڈویلپ کئے بغیر انٹرنیشنل مارکیٹس میں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہے۔ انہوںنے کہا کہ ماضی کی حکومت نے جو معاہدے کیے وہ پاکستان کی انڈسٹری کیلئے فائدہ مند نہیں تھے ۔ انہوںنے کہا کہ چین نے ہر شعبہ میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے جبکہ چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر معاہدہ ہونے جا رہا ہے جس کےلئے وزیراعظم عمران خان اپریل کے آخر تک چین کا دورہ کریں گے ۔انہوںنے کہا کہ ہمارے صنعت کاروں کو عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی ہوگی۔انہوںنے ےقین دلایا کہ حکومت ملک میں خصوصی انڈسٹریل زونز میں سرمایہ کا روں کو بہتر سہو لیات فراہم کرے گی۔انہوںنے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی رینکنگ بہتر کرنے کا ہدف دیا ہے جس کی تکمیل کےلئے کاروبار کے فروغ کی غرض سے بہترین پالیسی لائی جا رہی ہے جس میں حکومت کمزور معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے بھر پور اقدامات اٹھا ئے گی۔انہوںنے کہا کہ نامسا عد حالات کے باجود معیشت درست سمت میںگامزن ہے جبکہ اس کے متعلق فیصلوں کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔انہوںنے مزید کہاکہ رواں سال ملکی تاریخ کی ریکارڈ برآمدات کا ہد ف حاصل کر لیا جائے گا علاوہ ازیں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کیلئے بھی تمام وسائل بروئے کار لا ئے جائیں گے۔قبل ازیںپروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین ریکٹر نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی، ڈاکٹر یاسر نواب ۱ٓرگنائزر و ڈین فیکلٹی ۱ٓف انجینئرنگ اور ڈاکٹر خرم طارق چیئرمین سنٹر فار بزنس اینڈ اکنامک ڈویلپمنٹ ایف سی سی ۱ٓئی نے اپنے خطاب میںمہمان خصوصی کو بتایا کہ نیشنل ٹیکسٹائل ےونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مزید جدت لانے کےلئے کووی ٹیکس اینڈ ڈائس ٹیکس انو ویشن کے عنوان سے 2روزہ کانفرنس و نمائش جو ۱ٓج جمعرات کو بھی جاری رہے گی میں 40ےونیورسٹیوں ، 150فیکلٹی گروپوں اور 120 صنعتی اداروں کے چیف ایگزیکٹو ز سمیت 5ہزار کے قریب مندوبین شرکت نیز 300سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری سٹیک ہولڈرز کے نمائندے بھی کانفرنس پینل میں ہونے والی بات چیت میں حصہ لے رہے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ مذکورہ 2روزہ عظیم الشان کانفرنس و نمائش مختلف ایونٹس پر مشتمل ہے جس کا مقصد ٹیکسٹائل کی صنعت کو دور جدید کے تقاضوں اور عالمی منڈیوں کے معیار کے مطابق ڈھالنا اور مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے تجربات سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کی صنعت کو درپیش چیلنجز کا تدارک ےقینی بنانا ہے۔ انہوںنے بتایاکہ مذکورہ کانفرنس و نمائش میں ملک بھر سے ٹیکسٹائل کے شعبہ سے منسلک مندوبین، جامعات کے ماہرین اور ٹیکسٹائل انڈسٹری سے متعلقہ پروگرام کے طلباءو طالبات کی شرکت ایک اعزاز ہے ۔ انہوںنے بتایاکہ اس موقع پر ےونیورسٹیوں کے طلباءو طالبا ت کی جانب سے اپنے اپنے پراجیکٹس کے سٹالز لگا کر ان کی نمائش بھی کی جارہی ہے جہاں پر ٹیکسٹائل صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے سے متعلق نئے آئیڈ یاز پیش کئے جارہے ہیں۔انہوںنے بتایاکہ بہترین پراجیکٹس پیش کرنے والے طلباءو طالبات کولاکھوں روپے کے نقد انعامات سے بھی نوازا جائے گا۔انہوںنے بتایاکہ ےہ کانفرنس اور شاندار نمائش عام وزیٹرز کےلئے صبح 9سے شام 5بجے تک اوپن رہے گی۔انہوںنے بتایا کہ ےہ کانفرنس اور نمائش پاکستان کی تاریخ میں صنعت سے وابستہ افراد ، ٹیکسٹائل سیکٹر سے منسلک حکام اور تعلیمی اداروں کے طلباءو طالبات کا اس حوالے سے سب سے بڑا اجتماع ہے۔انہوںنے بتایاکہ نیشنل ٹیکسٹائل ےونیورسٹی پچھلے تین سالوں سے اس کانفرنس و نمائش کا باقاعدگی سے انتہائی شاندار انداز میں انعقاد کرتی چلی آرہی ہے جس کا مقصد پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اسے جدت کی نئی بلندیوں تک پہنچانا ہے۔انہوںنے بتایاکہ اس کانفرنس و نمائش کا ایک اور مقصد طلباءو طالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے میں بہترین پلیٹ فارم کی فراہمی بھی ہے۔انہوںنے بتایاکہ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں جدت متعارف کروانے اور اسے نئی بلندیوں پر لے جانے میں نیشنل ٹیکسٹائل ےونیورسٹی نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے ےہی وجہ ہے کہ مذکورہ ےونیورسٹی کی ٹیکسٹائل کے شعبہ میں خدمات کو ملک بھر میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔