اسلام آباد۔5مئی (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ بیگم ثمینہ علوی نے کہاہے کہ معذورافراد کو مہارت یافتہ بنانے اور انہیں مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ معذورافرادسے متعلق وزارتِ اطلاعات اور میڈیا ڈیجیٹل کے ساتھ ساتھ سکول اور علاقائی سطح پر ایک قومی آگاہی مہم کی ضرورت ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو معذور افراد سے متعلق پالیسی مذاکرہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری،ارکان پارلیمنٹ، ،ماہرین ،عالمی ادادرہ صحت اور وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے ویڈیولنک کے ذریعے شرکت کی۔
انہوں نے کہاکہ کہ معذور افراد کی ترقی و خوشحالی ایک ایسا موضوع ہے جو کہ میرے دل کے بہت قریب ہے اور میں اس موضوع پر آگاہی پیدا کرنے کیلئے کام بھی کررہی ہوں۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک شخص کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ اسی طرح سال 2050ء تک 60 سال سے زائد عمر کی آبادی تقریباً 2 ارب ہوجائے گی اور انہیں کسی نہ کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی تقریباً 15 فیصد آبادی کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق پاکستان میں بھی تقریباً 15 فیصد آبادی معذوری کا شکار ہے۔ انہوں نے کہاکہ معذور افراد کو تعلیم اور صحت کی سہولیات اور پبلک مقامات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں ایسے لوگوں کی رسائی اور نقل وحرکت بڑھانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ انہیں معاشرے کے قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں معذور افراد کو مالی طور پر خود مختار بنانے کیلئے پاکستانی بینکوں کی جانب سے دی جانے والی قرض کی سہولت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وزیرِ اعظم کے کامیاب جوان کے تحت معذور افراد کو دی جانے والی سہولیات کے بارے میں بھی ہمارے نوجوان خصوصی افراد میں آگاہی نہیں پائی جاتی۔ اس سلسلے میں ایک آگاہی مہم کی ضرورت ہے تاکہ کانفرنسوں اور میڈیاسیمینارز کی مدد سے افراد باہم معذوراں کو ان مصنوعات کے بارے میں آگاہی پیدا کی جاسکے۔
انہوں نے کہاکہ معذور افراد کو اپنے پائو ں پر کھڑا کرنے کیلئے انہیں خود کاروبار شروع کرنے کے قابل بنانے کیلئے انہیں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مہارتوں کے ساتھکاروباری مہارتیں بھی فراہم کی دی جائیں تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ ہوں اور اپنے کاروبار کو آسانی سے چلا سکیں۔ اسی طرح سٹیٹ بینک آ ف پاکستان کی جانب سے بھی معذور افراد کے لئے قرض کی اسکیم متعارف کرائی گئی ہیں۔ اس کیلئے متعلقہ بینکس اور اداروں کو چاہیے کہ اس مقصد کیلئے آگاہی کیلئے تمام وسائل استعمال کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سہولیات کا استعمال کرسکیں۔ انہوں نے کہاکہ کہ معذور افراد کاایک اور بڑا مسئلہ رجسٹریشن کا ہے۔ ان کیلئے یہ ایک پیچیدہ عمل ہے اور ہمیں اس سارے عمل کو آ سان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ معذور افراد افراد حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
رجسٹریشن سے نہ صرف معذور افراد کی درجہ بندی میں مدد ملے گی بلکہ اس سے ان کی معذوری اور ہر شخص کی انفرادی ضروریات کے مطابق سہولیات فراہم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ انہوں نے کہاکہ احساس پروگرام کے تحت معذور افراد کے حوالے سے ایک سروے کیا جارہا ہے جو کہ اس سال جون تک مکمل ہو جائے گا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے مردم شماری کے نظام میں بھی معذور افراد کا خیال رکھنا ہوگا کہ نہ صرف معذور افراد کو گنا جائے بلکہ ان کی معذوری کی بھی درجہ بندی کی جائے تاکہ حکومت کے پاس ان کے بارے میں مکمل ڈیٹا موجود ہو۔ اس سے حکومت کو اندازہ ہو سکے گا کہ ہمیں اپنی صحت اور تعلیم کی سہولیات کو کتنے افراد باہم معذوراںافراد تک پہنچانا ہے اور انہیں کس قسم کی سہولیات دینا ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ آئندہ مردم شماری میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا اور انہیں نہ صرف گنا جائے گا بلکہ ان کی درجہ بندی بھی کی جائے گی۔
انہوں نے کہاکہ معذور افراد کو مہارت یافتہ بنانے اور انہیں مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حکومت نے خصوصی افراد کیلئے 2 فیصد کوٹا مختص کیا ہے مگر اسے مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے وزارتِ اطلاعات اور میڈیا ڈیجیٹل کے ساتھ ساتھ سکول اور علاقائی سطح پر ایک قومی آگاہی مہم کی ضرورت ہے تاکہ معذور افراد اور ان کے والدین کو ان کیلئے خصوصی سہولیات کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔ اس کیلئے ہمیں باقاعدہ اہداف کا تعین کرنا اور اس کے حساب سے ایک منظم مہم چلانے کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ آگاہی کے علاوہ ، پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس بات کا پابند بنانا ہوگا کہ وہ اپنے اپنے شعبے میں معذور افراد کو ان کے ہنر کے مطابق ملازمتیں دیں۔ انہیں یہ ملازمتیں ان کی فلاح وبہبودکی سوچ کے تحت نہ دی جائیں بلکہ ادارے کی ضرورت ، معذور افراد کی انفرادی صلاحیت کے تحت دی جائیں۔ انہوں نے کہاکہ معذور افراد کو پیشہ وارانہ فنی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مرکزی اداروں میں تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو معاشرے سے الگ تھلگ نہ سمجھیں۔ ہمیں انہیں اس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ اگر ان کی خصوصی ضروریات کو پورا کردیا جائے تو وہ عام آدمی کی طرح قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس گول میز پالیسی مذاکرہ کے انعقاد سے یہ بات واضح ہے کہ حکومت معذور افراد کی بحالی اور خوشحالی کے بارے میں سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں طویل مدتی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ امید ہےکہ اس گول میز مذاکرہ کے انعقاد سے ہم نہ صرف معذور افراد کیلئے پالیسی سازی میں شمولیت یقینی بنا سکیں گے بلکہ اس پالیسی کے نفاذ سے ایک احساس پر مبنی معاشرے کا قیام بھی ممکن ہو سکے گا۔