اسلام آباد۔3فروری (اے پی پی):بھارتی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے بھارت کے غیرقانونی زیرتسلط جموں و کشمیر کی معیشت کو 9 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس سے مقامی آبادی کی زندگیوں پر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے مطابق زراعت، باغبانی، سیاحت اور دستکاری کی صنعت سمیت بنیادی شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، بہت سے تاجروں نے اپنے تجارتی مراکز کو بھارتی غیرقانونی زیرتسلط جموں و کشمیرسے باہر منتقل کر دیا ہے اور مقامی افراد کو اس مشکل وقت میں پیسہ کمانے کے لیے متبادل طریقے تلاش کرنے پڑ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اقتصادی بحران سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چھوٹے کاروبار اور دکانیں بھارتی حکومت کی طرف سے ثقافتی طور پر نوآبادیاتی تھیں۔مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو تقریباً نو ارب ڈالر اور تین سال کا ترقیاتی نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 35اے کی منسوخی ریاست کی معیشت کی بے روزگاری کی بلند شرح، صنعتوں کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی بے روزگاری کے ساتھ کساد بازاری کی وجہ بنی۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے 75 سال سے بھارتی قبضے نے مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو بلکہ سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں کو بھی متاثر کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں موجودہ معاشی بحران درحقیقت ماضی میں بھارتی حکومت کے بے لگام اور بلاجواز اقدامات کا نتیجہ ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور تقریباً 6 ماہ کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کے بڑے منفی اثرات کے بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے بجٹ میں کٹوتی نے مقبوضہ کشمیر میں موجودہ معاشی بحران میں حصہ ڈالا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹیوز کے ایک مطالعہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو ہر سال ہندوستان بھر میں بدامنی سے 1,500 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے اور کشمیر کا حصہ تقریباً 750 کروڑ روپے یا ہندوستان کی جی ڈی پی کا 0.77 فیصد ہے کیونکہ کشمیر ریاست کی جی ڈی پی میں 55 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔
ریاست کے مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے تجارت اور سیاحت کو کافی نقصان پہنچا جبکہ 18 اپریل 2019 کو بھارتی حکومت کے ایل او سی پار تجارت معطلی کے حکم نے مقبوضہ کشمیر میں 1700 سے زیادہ تاجروں کو متاثر کیا۔ 2019 سے 2022 تک جموں و کشمیر پر ہندوستان کے قبضے سے 7 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ اگست 2019 سے لے کر اب تک دس لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں خطے کی اہم سیاحت اور باغبانی کی صنعت سے وابستہ افراد شامل ہیں، اس خطے میں موجودہ معیشت تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ مقامی کاروباری اداروں کو نئی سرمایہ کاری کی زیادہ امید نہیں ہے کیونکہ سرمایہ کاری کیلئے ایک قابل اعتماد اقتصادی پالیسی کی ضرورت ہے۔
صرف 5 اگست 2019 کے بعد پہلے تین مہینوں میں سیاحت کے شعبے میں 71 فیصد آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کی طرف سے بار بار کرفیو اور لاک ڈاؤن مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کو 2010 میں 3 ماہ کے اندر 21,000 کروڑ روپے سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا، 2013 میں افضل گرو کی پھانسی کے بعد کرفیو کے 26 دنوں میں 4,500 کروڑ روپے، 8 جولائی سے نومبر تک کے پانچ مہینوں کے دوران 16000 کروڑ روپے، 2016 میں 30، 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد 4 ماہ میں 17,878 کروڑ روپے ، 2019-2020 کے لاک ڈاؤن کے 10 ماہ میں 5.3 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
دستکاری کے شعبے کو 5 اگست 2019 کے بعد تقریباً 3,500 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 2020 میں 312 ، 2021 میں 195 اور 2022 میں 180 سے زیادہ محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں کی گئیں۔ 2005 سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی بندشوں (ڈیجیٹل بلیک آؤٹ) نے بھی مقامی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 400 سے زیادہ ڈیجیٹل بلیک آؤٹ اور اسپیڈ تھروٹلنگ تھے۔ 2012 اور 2017 کے درمیان ریاستی معیشت کو 4000 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جبکہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بنیادی طور پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر انحصار کرنے والے شعبے، تقریباً 90 فیصد چھوٹے کاروبار اور درجنوں طلباء جو مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاری کر رہے تھے، انٹرنیٹ خدمات کی عدم موجودگی میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
مقبوضہ کشمیر نے 2012 اور 2022 کے درمیان تقریباً 450 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن دیکھے۔ 2020 میں 116، 2021 میں 85 جبکہ 2022 میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے کل 146 شٹ ڈاؤن ہوئے جو کہ گزشتہ دس سالوں میں سب سے زیادہ تھا۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دہائیوں پرانے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ رپورٹ میں مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اقتصادی ناکہ بندی کو ہٹایا جانا چاہیے۔