اسلام آباد۔11نومبر (اے پی پی):اقتصادی امور کے وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ ملکی غذائی ضروریات کو پورا رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ بدھ کو اپنے ایک بیان میں انھوں نے واضح کیا کہ سال رواں کے لئے گندم کی ضرورت کا تخمینہ 27 اعشاریہ 6 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جس میں 2اعشاریہ 2 ملین میٹرک ٹن بیج اور ذخیرہ بھی شامل تھا جبکہ کیری فارورڈ سٹاک سمیت گندم کی مجموعی پیداوار 25 اعشاریہ 8 ملین میٹرک ٹن رہی۔ ان حالات میں طلب اور رسد کے فرق کو ختم کرنے اور مارکیٹ میں قیمتوں میں استحکام برقرار رکھنے کے لئے حکومت نے 2 اعشاریہ 2 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ طلب اور رسد کے درمیان فرق کو صرف گندم درآمد کرکے ہی ختم کیا جا سکتا تھا۔ مخدوم خسرو بختیارنے مزید بتایاکہ پاسکو اور پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی ترسیل کے دوران طلب و رسد کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے گئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت کو ایک اعشاریہ 2 ملین میٹرک ٹن گندم کے حصول میں کمی کے پیش نظر پاسکو نے صوبائی حکومت کو صفر اعشاریہ 5 ملین میٹرک ٹن گندم فراہم کی۔وفاقی وزیر نے کہاکہ سال 2018-2019ءکے دوران 5 اعشاریہ 5 ملین میٹرک ٹن گندم کی درآمد کے حوالے سے میڈیا کے ایک حلقے کی رپورٹ مکمل طورپر بے بنیاد ہے۔ وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ اس عرصے میں صرف صفر اعشاریہ 59 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی جبکہ سال 2017-2018ءمیں 2 اعشاریہ ایک ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ گھریلو سٹاک کی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ کئی برسوں میں گندم کی درآمد اور برآمد معمول کی سرگرمی رہی ہے۔ سال 2009 سے 2019ءتک مجموعی طورپر 9 ملین میٹرک ٹن گندم برآمد کی گئی جبکہ اس عرصے میں ایک اعشاریہ 2 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔ اس لئے 5 اعشاریہ 5 ملین ٹن گندم کی درآمد کی وجہ سے گندم کی قیمتوں میں اضافے کو منسوب کرنا سراسر غیرموزوں ہے۔ وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار نے مزید کہاکہ گندم کی کاشت کا عمل 2 ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے جبکہ اس کی کھپت سارا سال جاری رہتی ہے اس لئے قیمتوں میں استحکام اور گندم کی بلاتعطل فراہمی کو برقرار رکھنے کے لئے وفاق اور صوبائی حکومتیں گندم کے ذخیرے سٹوریج اور دیگر اخراجات خود برداشت کرتی ہیں۔ مخدوم خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ رواں سال 2 اعشاریہ 2 ملین میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر اٹھنے والے 29 ارب روپے کے اضافی اخراجات اور سبسڈی کی مد میں 66 ارب روپے وفاقی اور صوبائی حکومتیں خود برداشت کریں گی۔ وفاقی وزیر اقتصادی امور نے کہا کہ سال 2013ءسے 2018ءکے دوران زرعی شعبے کی پیداوار میں صفر اعشاریہ چار فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس کی کھپت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس لئے گندم کی فی کس دستیابی 140 کلو گرام سے کم ہو کر 124 کلو گرام کی سطح پر آ گئی ہے۔ مخدوم خسرو بختیار نے کہاکہ حکومت غذاتی تحفظ اور زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح پرعزم ہے اور اس مقصد کے لئے 275 ارب روپے کی لاگت سے ”وزیراعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام“ کا آغاز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے کسانوں کو مراعات دینے اور پیداوار میں اضافے کے لئے گندم کی پیداواری قیمت میں 27 فیصد تک اضافہ کیا جبکہ موجودہ حکومت سے قبل چار برس تک گندم کی امدادی قیمت 13 سو روپے 40 کلو گرام تک برقرار رہی۔