فیصل آباد۔ 13 جنوری (اے پی پی):فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سینئر کارڈیالوجسٹ و کارڈیوویسکیولرسرجن ڈاکٹر اطہر رؤف رانا نے کہا ہے کہ ملک میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک ہے۔
انہوں نے اے پی پی کو بتایا کہ گزشتہ 20سالوں میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد 60ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور ہر سال 6ہزار کے قریب نئے کیسز سامنے آرہے ہیں لہٰذا تھیلیسیمیا سے بچنے کے لئے حاملہ خواتین کو ابتدائی ایام سے ہی ہر سرکاری ہسپتال میں موجود بلڈ سکریننگ ٹیسٹوں کی مفت سہولت سے استفادہ کر نا ہو گا نیزمعاشرے کے تمام طبقے عوام میں تھیلیسیمیا سے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنے میں اپنا کردار اد اکریں۔
انہوں نے کہا کہ تندرستی بہت بڑی نعمت ہے لیکن ہماری معمولی سی غفلت ہمارے بچوں کو سنگین امراض میں مبتلا کر رہی ہے جس کے تدارک کے لئے بروقت اقدامات ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ تھیلیسیمیا ایسی بیماری ہے جو ماں باپ کے جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے اور مذکورہ بیماری کی صورت میں ہر ہفتے خون کی بوتل کے علاوہ بطور علاج معالجہ ہزاروں روپے بھی خرچ ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ تھیلیسیمیا سے بچاؤ کے لئے عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے ۔
انہوں نے بتایاکہ مذکورہ بیماری میں مبتلا بچے کا خون بہت تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے جسے کم سے کم ایک ہفتہ اور زیادہ سے زیادہ 20 دن بعد خون کی بوتل کی ضرورت ہوتی ہے اور بار بار خون کی تبدیلی کی بدولت ان بچوں کے دل و جگر بہت زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان بچوں کی زندگی کی مہلت 20 سے 25 سال تک ہی ہے وہ بھی بہت کم بچوں کی ورنہ زیادہ تر عمر 13سے 17 سال تک ہوتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ تھیلیسمیا میں زیادہ تر مریضوں کی تلی بڑھ جاتی ہے جس پر آپریشن کرنا لازمی ہوتا ہے جس پر لاکھوں روپیہ خرچ آتا ہے جبکہ بار بار خون منتقلی کی بدولت ان کی خاص دوائی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے جس کی موجودہ قیمت 5 ہزار روپے ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مخیر حضرات ، صاحب ثروت شخصیات اور با وسائل لوگوں کو بھی تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کے علاج معالجہ کے لئے متعلقہ طبی اداروں کی معاونت کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ان بچوں کے لئے ہر شہر کی سطح پر این جی اوز قائم ہونی چاہئیں جو ان مریضوں کے لئے خون کے عطیات جمع کرنےکے ساتھ ساتھ علاج معالجہ اور ان کی ضروریات زندگی کے لئے وسائل پیدا کر سکیں۔انہوں نے بتایاکہ ہر شہری کو بھی چاہیے کہ و ہ ان بچوں کے علاج کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔