اسلام آباد۔31اگست (اے پی پی):طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں ذیابیطس، موٹاپے، دل اور متعلقہ بیماریوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ الٹرا پراسیسڈ فوڈ ز اور میٹھے مشروبات کا استعمال ہے، اس وقت پاکستان ذیابیطس کا شکار افراد کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے ،اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو خدشہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہوگا، اس خطرناک صورتحال سے باہر آ نے کیلئے حکومت کو ایسی پالیسیز بنانا پڑیں گی جس سے ان مضر صحت اشیاء کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ)، زیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستا ن اور یونیورسٹی آف کر اچی کے اشتراک سے میٹھے مشروبات کے صحت اور معیشت پر ہونے والے نقصانات کی آگاہی اور اس سے بچاؤ کے طریقوں پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پناہ کے سیکریٹری جنرل ثناہ اللہ گھمن نے کہا کہ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسو سی ایشن گزشتہ 40 سالوں سے لوگوں کو دل اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے بچانے کی آگاہی دے رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پناہ حکومت کے ساتھ مل کر ان بیماریوں کا موجب بننے والی وجوہات کی روک تھام کیلئے قوانین بنوا رہی ہے تا کہ اپنے ہم وطنوں بالخصوص بچوں کو صحت مند زندگی دی جا سکے ۔
انھوں نے کہا کہ صحت مند قوم ہی کسی ملک کی مظبوطی کی ضامن ہوتی ہے اور آج کا یہ پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میٹھے مشروبات اور انرجی ڈرنکس کا بے دریغ استعمال ذیابیطس، دل اور موٹاپے جیسی کئی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی اشتراک کی ضرورت پر زور دیتے ہوے کہا کہ اس سے ہم زیادہ موثر طریقے سے اپنی آواز پالیسی ساز اداروں تک پہنچا سکتے ہیں اور مل کر آنے والی نسل کو ایک صحت مند پاکستان دے سکتے ہیں۔
ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ شوگری ڈرنکس ایسے مشروبات ہیں جن میں اضافی شکر ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگناہزیشن کے مطابق اضافی شکر کی کھپت کل کیلوریز کے 10 فیصد سے کم ہونا چاہیے، ان میٹھے مشروبات کے زیادہ استعمال سے بڑوں خاص طور پر بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
موٹاپے، زیابیطس، دل اور پہت سی دوسری بیماریوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہی میٹھے مشروبات ہیں اور انہی میٹھے مشرو بات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے آج پاکستان دنیا میں زیابیطس میں تیسرے نمبر پر ہے اور جس تیزی سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے خدشہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر نہ آجائے۔
انہوں نے کہا کہ ان مشروبات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے نہ صرف ان بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے بلکہ حکومت کے صحت پر اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ صرف ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان کے سالانہ اخراجات کا تخمینہ 2640 ملین امریکی ڈالرسے زیادہ ہے۔یونیورسٹی آف کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد غفران سعید نے کہا کہ جس تیزی سے ذیابیطس، موٹاپے، دل اور متعلقہ بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ الٹرا پراسیسڈ خوراک اور میٹھے مشروبات کا استعمال ہے، اگر ہم اس خطرناک صورتحال سے باہر آ نا چاہتے ہیں تو حکومت کو ایسی پالیسیز بنانا پڑیں گی جس سے ان مضر صحت اشیاء کے استعمال میں کمی آئے اور خاص طور پر ان چیزوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
ہیلتھ ایڈووکیسی انکوبیٹر کے کنسلٹنٹ منور حسین نے کہا کہ دنیا نے میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے اور ان کے نقصانات سے اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے کچھ پہت موئثر اقدامات کیے ہیں ہمیں بھی ان اقدامات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، دنیا کے کئی ممالک نے اس کے لیے جو اقدامات کیے ان میں ان مشروبات کے نقصانات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ ان پر ٹیکس میں اضافہ سب سے پہلا اور سب سے زیادہ موثر ہتھیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مشروبات کی مارکیٹنگ پر پابندی، وارننگ سائنز اور سکول فوڈ پالیسی شامل ہے۔
جن ممالک نے ان پر عمل کیا انہوں نے نہ صرف اپنے ملک میں بیماریوں کے بوجھ کو کم کیا بلکہ حکومت کے ریوینو میں بھی اضافہ کیا۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب نے جب سوڈا پر 50فیصد ٹیکس اور انرجی ڈرنکس پر 100 فیصدٹیکس بڑھایا تو وہاں سوڈا کے استعمال میں 41 فیصد اورانرجی ڈرنکس کے استعمال میں 65 فیصد کمی ہوئی۔
اسی طرح قطر، چلی، مالدیپ اور بہت سے دوسرے ممالک نے مناسب پالیسی ایکشن لے کر اپنے ملکوں میں بیماریوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ریوینیو میں بھی اضافہ کیا جبکہ ان اقدامات سے صحت پر اخراجات میں بھی کمی آئی۔ انہوں نے ہیلتھ کنٹری بیوشن بل کے بارے میں بتایا کہ اس سے میٹھے مشروبات کے استعمال میں کمی لانے میں مدد ملے گی، بیماریاں کم ہوں گی اور حکومت کے ریوینیو میں بھی اضافہ ہو گا ۔
تقریب سے سندھ فوڈ اتھارٹی اور پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے نمائندگان نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار میں گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکوبیٹر کے کنسلٹنٹ منور حسین، ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر عبدلباسط، یونیورسٹی آف کراچی سے ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غفران سعید، سندھ فوڈ اتھارٹی، بقائی انسٹیٹیوٹ، پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی، پی سی ایس آئی آر کے نمائندگان کے علاوہ سول سوسائٹی، ہیلتھ پروفیشنلز اور میڈیا کے بہت سے لوگوں نے شرکت کی۔