اسلام آباد۔15جون (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ملک میں پائیدار گروتھ کی ضرورت ہے، معیشت ترقی کرے گی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، آئندہ سال ہم 5 فیصد کی گروتھ عبور کریں گے جبکہ اگلے سال گروتھ کو 7 فیصد تک لے جائیں گے، ہم صنعتوں کو کافی مراعات دے رہے ہیں، ٹیکس محصولات کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا، ٹیکس چوروں کی گرفتاری میرے احکامات کے بغیر نہیں ہوگی، گرفتاری کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی، ملک کی برآمدات بڑھانے کے لئے ہم نئے شعبوں کو برآمدات میں شامل کر رہے ہیں، اس سال لوگوں کو ساڑھے سات سو ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جامع اور پائیدار گروتھ ہماری پہلی ترجیح ہے، جب تک ریونیو نہیں بڑھے گا گروتھ بھی نہیں بڑھے گی، جب معیشت کا پہیہ تیزی سے چلے گا تو روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور آمدن میں بھی اضافہ ہوگا، اسی طرح جب آمدن میں اضافہ ہوگا تواس کے ساتھ ساتھ قوت خرید میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیداواری شعبوں میں زراعت بہت اہمیت کا حامل ہے، اس وقت ہم اشیاء خورد و نوش کے درآمد کنندہ بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے، جب عالمی منڈی میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان میں بھی اس کا اثر پڑتا ہے تاہم موجودہ حکومت زراعت کے شعبے کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی کیلئے انہیں مراعات دے رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں کمی آئے گی،
اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں کو نیچے لانیکے لئے ہم پیداواری شعبوں کو ترقی دیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ سال ہم ملک میں 5 فیصد گروتھ کا ہدف حاصل کریں گے اور اسی طرح ہم پرامید ہیں کہ اگلے سال گروتھ 6 فیصد زیادہ ہوگی، میری کوشش ہے کہ اس وقت سے لیکر 2023ء تک ہم گروتھ کی شرح کو 7 فیصد تک لے کر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی برآمدات بڑھانے کے لئے ہم نئے شعبوں کو برآمدات میں شامل کر رہے ہیں جن میں موٹر سپیئر پارٹس، فارماسیوٹیکل کا شعبہ شامل ہے، اس کے علاوہ آئی ٹی کا شعبہ اس حوالے سے ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے،
آئی ٹی کے شعبہ میں کافی گروتھ کی گنجائش موجود ہے، ہم آئی ٹی اور سافٹ ویئر کو صنعت کا درجہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے حوالے سے حکمت عملی جیسے چل رہی ہے اس طرح ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، میرے نزدیک کوئی چیز ناممکن نہیں، ہم ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کریں گے اور جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ان کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، حکومت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس کلیکشن میں بھی اضافہ کرے گی، نادرا اور ایف بی آر کے ڈیٹا کے ذریعے ایسے لوگ جن پر ٹیکس بنتا ہے اور وہ نہیں دے رہے ہمیں ایسے لوگوں تک پہنچنا ہوگا، ہم 7.2 ملین لوگوں سے ٹیکس وصول کریں گے،
ہمیں ٹیکس نادہندگان تک پہنچنا ہوگا، جعلی سگریٹ بنانے والوں کو بھی پکڑیں گے، اس کے علاوہ ہم ٹیکس کے نظام میں ایک جدت لائیں گے جس میں کسٹمر سے کہا جائے گا کہ وہ پکی پرچی کا مطالبہ کرے اور جو پکی پرچی بھیجے گا اسے انعام دیا جائے گا، اس طرح ٹیکس چوری کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوروں کی گرفتاری کے حوالے سے رولز آف بزنس بننا ابھی باقی ہیں، میرے احکامات کے بغیر کوئی گرفتاری نہیں ہوگی، گرفتاری کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی، کمیٹی میں مجھ سمیت وقار مسعود اور چیئرمین ایف بی آر شامل ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام سخت تھا، آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی تھیں، ہم نے آئی ایم ایف کو اپنا راستہ بتا دیا ہے، میں نے آئی ایم ایف کے سامنے سخت سٹینڈ لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سٹیٹ بینک یا سنٹرل بینک کو ایک حد تک خودمختار ہونا چاہیے لیکن اس کے لئے ہمارے ساتھ مل کر کوآرڈینیشن ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال بہت تھوڑے قرضے لئے گئے ہیں، پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے کورونا وباء کے دوران تقریباً قرضے میں دو سے تین فیصد اضافہ کیا ہے جبکہ باقی ممالک نے تو 10,10 فیصد اضافہ کیا ہے،
ہم اس کو کنٹرول میں لا رہے ہیں، جیسے جیسے معاشی ترقی ہوگی مجموعی ملکی پیداوار اور قرضوں میں فرق کم ہوتا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے وعدوں پر پورا اتروں گا، ہم ساڑھے سات تو ارب روپے لوگوں کو اس سال قرضے دیں گے، بڑے کمرشل بینکس چھوٹے قرضے نہیں دے سکتے، ہم این جی اوز، این آر ایس پی اور اخوت سمیت دیگر اداروں کے ذریعے کے ذریعے گھروں اور چھوٹے کاروبار کے لئے قرضے دیں گے، کاشتکاروں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں گے، اس کے علاوہ صحت کارڈ اور سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنائیں گے۔