ملک کودوبارہ اپنےپائوں پرکھڑا کرنےکیلئےاداروں کو اپنےاخراجات میں کمی لاناہوگی،معاشی استحکام کیلئےبیرونی سرمایہ کاری ضروری ہے،وفاقی وزیراحسن اقبال کاسینئرمینجمنٹ کورس کےشرکاء سےخطاب

134

لاہور۔24فروری (اے پی پی):وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے اداروں کو اپنے اخراجات میں کمی لانا ہو گی،معاشی استحکام کیلئے نجی اور بیرونی سرمایہ کاری ضروری ہے،کوئی شک نہیں کہ حکومتی پالیسی کو لاگو کرنے کے لیے بیوروکریسی بڑی طاقت ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز یہاں سٹاف کالج میں سینئر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہو ئے کیا ۔

وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہا کہ جب 1997 میں مسلم لیگ (ن )نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی معیشت کو استحکام دینے کی بھر پور کوشش کی اور پھر 2013 میں بھی ایسی ہی جدو جہد کا مظاہرہ کیا لیکن سیاسی ہیجان نے ہمیشہ ملک کو پٹری سے اتارا۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک میں بجلی نہیں تھی اور پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا تب مسلم لیگ( ن ) نے پاکستان کو ان بحرانوں سے نکالا اور صرف چار سال کے بعد تمام بڑے ملکوں کے ایمبسڈر پوچھا کرتے تھے کہ ہم پاکستان میں سی پیک میں کہاں انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں، ہم نے چار سالوں میں 11 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی اور اکانومی کواربوں روپے کا فائدہ دیا مگر بدقسمتی سے ملک میں سیاسی ہیجان نے ہر چیز کو خراب کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم350 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہزار ارب تک لیکر گئے لیکن اب جب ہم نے اپنی سیاست کو قربان کر کے ریاست بچانے کیلئے حکومت سنبھالی تو دیکھا کہ قومی خزانے میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز بھی نہیں تھے، ایسے حالات تب بھی نہیں تھے جب مسلم لیگ (ن ) نے ایٹمی دھماکے کئے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کیلئے بیوروکریسی کا بڑا عمل دخل ہو گا اس کیلئے ہمیں سب سے پہلے ٹیکس کولیکشن بڑھانا ہو گی، تمام ترقیاتی ممالک میں ٹیکس کولیکشن کی سطح 16 فیصد ہے ،اب ٹیکس ایک ہی صارف پر لگانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ پر لانا ہوگا کیونکہ بہت سے کاروبار پاکستان سے دوبئی اور دوسرے ممالک میں شفٹ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب آئی ایم ایف چیف بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ کیسے آپ اپنا ملک چلائیں گے ،اب ملک کی بقا اسی میں ہے کہ بیرونی انویسٹمنٹ پاکستان آئے،ہم سے زیادہ ایف ڈی آئی ویت نام کی ہے اس کے لیے بزنس فرینڈلی ماحول بنانا ہو گا۔احسن اقبال نے کہا کہ2017 میں چینی صدر شی کے کہنے پر چین کی 100 بڑی کمپنیوں نے اسلام آباد میں دفتر کھول لئے تھے جس سے بہت بڑی انویسٹمنٹ پاکستان آنے کی توقع تھی لیکن ملک میں سیاسی تبدیلی کے بعد آنے والی پی ٹی آ ئی حکومت نے چائنیز کمپنیوں پر کرپشن کے الزامات لگائے ،ان کے ویزے رینیو نہیں کئے جس سے وہ دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے بھاگ گئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے 1960 والی پالیسی سینے سے لگائے ہوئے ہیں ،کراچی سٹاک ایکسچینج میں کوئی ایسی کمپنی نہیں جو دس ہزار ڈالر سے زیادہ ایکسپورٹ کر رہی ہو،اینگرو اور فوجی فاونڈیشن جیسے بڑے ادارے بھی ڈالر جنریٹ نہیں کر رہے ،ہمیں آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے قرضوں کی بجائے اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانا ہو گا، ریمٹنس جو تیس ارب ڈالر تک آ رہے ہیں اس کو مزید زیادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ دو ارب ڈالر کے لگ بھگ اسٹیٹ ریلیٹڈ انٹرپرائز کو دینا پڑتے ہیں ،پی آئی اے کے لیے سالانہ16 ارب کا خسارہ کر رہے ہیں، کوویڈ کے بعد موقع تھا کہ دس سال کا خسارہ کم کر لیتے لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پی آئی اے کو اتنا نقصان ہوا کہ سارا بزنس باہر کی ائیر لائنز لے گئیں، اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اورسیاسی پولرائزیشن سے ملک کو بچانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں ٹرسٹ ڈفیسٹ کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے، ایک وقت تھا کہ صنعتی انقلاب نے زرعی انقلاب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جس نے فائدہ اٹھایا وہ ممالک آگے نکل گئے، اب دوبارہ موقع پیدا ہوا کہ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے دور میں سب ممالک نے اپنا انفراسٹرکچر تبدیل کرنا ہے جس سے معیشت کو ڈیجیٹل کرنا ہے اس لیے بیوروکریسی کو بہت اچھے طریقے سے پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو کیسے آگے لیکرجانا ہے، اگر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اس گروپ کو اپنی قابلیت دکھانا ہو گی۔

احسن اقبال نے کہا کہ میرے دماغ میں چھ طریقے ہیں جس کو لاگو کر کے ملکی معیشت کو آگے لیجایا جا سکتا ہے،پہلا یہ کہ امن اور روا داری کومعاشرے میں لاگو کرنا ہو گا،دوسرا یہ کہ بیوروکریسی کا کیا معیار ہو گا کہ حکومتوں کو ریگولیٹری دی جائے ،تیسرا یہ کہ گورننس کا ماڈل فرسودہ ہو چکا ہے اب کمیونٹی بزنس اور سوسائٹی کو ساتھ لیکر جو چلے گا ٹیم بنائے گا وہ ہی بیوروکریٹ پاکستان کی صحیح معنوں میں خدمت کرے گا، چوتھا یہ کہ ملک کے داخلہ، خارجہ معیشت اور تمام محکموں کے افسران کی کوآرڈینیشن کیسی ہو گی یہاں دیکھا گیا ہے کہ ایک ادارہ دوسرے اداروں کے کام کو لٹکا دیتا ہے،

پانچواں یہ کہ اپنے تجربے سے کیسے عوام الناس کو ڈیل کریں گے کہ وہ خوش ہو یا اسے خوشگوار حیرت ہو کہ اسے کسی نے اچھا ڈیل کیا ہے،لوگوں کو سرکار پر اعتمادہو تو لوگ ٹیکس بھی دیتے ہیں اور حکومت سے خوش ہوتے ہیں اور چھٹا یہ کہ ہر چیز کا نالج پانچ سات سال بعد فرسودہ ہو جاتا ہے، اگر ہم دنیا کے جدید نظام کے مطابق رہنا نہیں سیکھیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے تمام ادارے پاکستان کے بہترین ادارے تھے لیکن اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگ سرکار کی بجائے پرائیویٹ سطح پر انحصار زیادہ کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ پبلک سیکٹر کارکردگی کے لحاظ سے لوگوں سے دور ہو تا جا ر ہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی طرح بیوروکریسی کے لیے بھی سکول ہونا چاہیے جس میں ایجوکیشن، ٹریننگ اور ریسرچ پر فوکس کرنا چاہیے اور جو اس سے ٹریننگ لیں ان کو سرٹیفکیٹ ملے، وزرات خزانہ سے ہم نے اجازت لی ہے کہ بہترین بیوروکریٹ لوگوں کو ٹریننگ دیں جو اپنے بیچ کے ٹاپر ہیں ان کو اس ٹریننگ سکول میں لایا جائے۔ احسن اقبال نے کہا کہ مستقبل میں جن چیزوں کی ضرورت ہے جیسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے ،سول سروس کے امتحان کو تین برانچزز میں ہونا چاہیے،پہلی فارن سروس ،دوسرا اکنامک یافنانس سے متعلق اور تیسرا میڈیا سے ہونا چاہیے جو پڑھے اسی کو اس سیٹ پر ہونا چاہیے ، ہم کوشش کریں گے کہ سول سروسز کو مزید بہتر کیا جائے کیونکہ آگے دنیا کے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ویسی ہی تبدیلیاں پاکستان میں بھی لانا ہوں گی۔