اسلام آباد۔2ستمبر (اے پی پی):سیاسی و سماجی علوم کے ماہرین نے کہا ہے کہ ملی شناخت ، قومی تشخص اور اجتماعی مقاصد و اہداف کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ اور تہذیب کے مطالعہ کو نئے انداز میں سمجھا جائے۔ یورپ کی مرکزیت پر مبنی نو آبادیاتی طرز فکر فطری اخلاقیات اور الٰہی رہنمائی سے عاری ہونے کے باعث انسانی زندگی اور سماجی ترقی کو الگ خانوں میں تقسیم کر کے محض مادی تعبیرات تک محدود کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس سماج اور تہذیب کے مطالعہ کا قرآنی نقطہ نظر تاریخ کو اخلاقی معیارات کی روشنی میں دیکھتا ہے جو عدل، انصاف اور سماجی ذمہ داری جیسی آفاقی اقدار سے تشکیل پاتا ہے اور تہذیب کو ان اقدار کے ثقافتی، سماجی اور ادارہ جاتی زندگی میں عملی مظاہرہ سمجھتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے منگل کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں "تاریخ اور تہذیب کی درست تفہیم” کے عنوان سے منعقدہ ایک فکر انگیز لیکچر کے دوران کیا۔ یہ لیکچر "آج کی دنیا اور انسانیت کا مستقبل” کے عنوان سے جاری سیریز کا حصہ تھا۔ کلیدی مقرر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد تھے جو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور تعلیم، مذہب اور عمرانیات کے ممتاز سکالر ہیں۔
حاضر شرکا کے علاوہ اس نشست میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم، سکالرز اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی جو زیر بحث موضوع کی عالمی اہمیت کی آئینہ دار ہے۔ افتتاحی کلمات میں اسلامی سماجی و سیاسی فکر کے ماہر ڈاکٹر مستفیض احمد علوی نے نشاندہی کی کہ موجودہ تصورات اکثر مغربی طرز فکر کی عکاسی کرتے ہیں اور موجوہ دور کے سیاسی و سماجی مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تجویز کرنے کا سارا عمل انہی تصورات اور اسی طرز فکر کی بنیاد پر تشکیل دیا گیاہے۔ ایسے شواہد کثرت سے ملتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی معاملات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کا یہ طریق کار نہ تو تمام انسانوں اور نہ ہی تمام ثقافتوں کے لیے سودمند ہوتے ہیں۔ اپنے لیکچر میں پروفیسر انیس احمد نے مغرب کی تاریخی فکر کے ارتقا کا جائزہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فکر یونانی عقلیت پسندی اور قرون وسطیٰ کی مسیحی تعبیرات سے گزر کر نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کے سائنسی مادیت اور آخرکار مابعد جدیدیت کے تصورات تک پہنچی۔ انھوں نے کہا کہ اس تصور نے انسانی زندگی کو دینی اور دنیاوی خانوں میں بانٹ دیا اور ترقی کو محض مادی پیمانوں سے ناپنے لگا۔ اس کے برعکس قرآنی نقطہ نظر تاریخ کو محض زمانی یا مادی عمل نہیں بلکہ اخلاقی تسلسل قرار دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی فکر تاریخ کو ماضی اور حال کے باہمی تعامل کے طور پر دیکھتی ہے جو ایک عادلانہ اور متوازن مستقبل کی تشکیل کے لیے اسباق فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام کے عروج و زوال کا فیصلہ فوجی طاقت یا معاشی قوت سے نہیں بلکہ انصاف، دیانت، امانت اور سماجی ذمہ داری جیسی آفاقی اقدار پر عمل درآمد سے ہوتا ہے ۔انھوں نے واضح کیا کہ تہذیب اور ثقافت کا تعلق براہ راست اقدار سے ہے۔ ثقافت انسانی زندگی کی اخلاقی و روحانی بنیادوں کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ تہذیب ان اقدار کے اداروں، معیشتوں اور معاشرتی نظاموں کی شکل میں مظاہرہ ہے۔ اسلامی تہذیب کسی مخصوص قوم یا خطے کی میراث نہیں بلکہ اقدار پر مبنی ایک آفاقی نظام ہے۔ انھوں نے کہا کہ توحید، عدل اور اخلاق جیسی اقدار صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ یہ ایسی آفاقی اصول ہیں جن پر کوئی بھی معاشرہ عمل کرے تو پائیدار ترقی اور انسانی وقار کو یقینی بنا سکتا ہے ۔ لیکچر میں عصری مسائل پر بھی بات ہوئی جن میں نظام تعلیم کا بحران، تاریخ کی تحریف کے خطرات اور سیاست و معیشت میں اخلاقی خلا شامل ہیں۔ ڈاکٹر انیس احمد نے زور دیا کہ مسلمانوں کو محض رسومات یا سطحی تعبیرات پر اکتفا کرنے کے بجائے اسلام کے ہمہ جہتی نقطہ نظر کو اپنانا ہوگا، جو ایمان کو عقل، اخلاق اور سماجی ذمہ داری کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر انیس نے کہا کہ تاریخ کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر محض مذہبی نہیں بلکہ سائنسی انداز فکر کا حامل ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ قرآنی زاویہ نظر نہ تو فرضی کہانیوں کو اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی یہ کسی خاص دور میں جامد ہے، بلکہ یہ انسانی رویوں کے اخلاقی اور مشاہداتی اصولوں پر مبنی ہے، اس لیے عقلی اور قابل تصدیق ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اسلامی تاریخ معجزات یا اساطیر کی تاریخ نہیں بلکہ انسانی فیصلوں، ذمہ داریوں اور ان کے نتائج کی تاریخ ہے