اسلام آباد۔3فروری (اے پی پی):ماہرین نے کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں بیان کردہ بنیادی مواد سےلاعلمی سیاسی جماعتوں کو ان کے انتخابات سے پہلے کے وعدوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں چیلنجز کا باعث بنتی ہے۔ 70 فیصد شہری، بشمول پارٹی اراکین اورعام عوام کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں بیان کردہ بنیادی مواد سے واقف نہیں۔یہ انکشاف سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اسلام آباد میں ہونے والے ایک مباحثے کے دوران کیا جس کا اہتمام غیر سرکاری ادارے اکاؤنٹیبلٹی لیب نے کیا تھا۔ اس مباحثے، جس میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول قانون ساز، سول سوسائٹی کی تنظیموں ، میڈیا ، ڈیجیٹل میڈیا اورتعلیمی اداروں سے وابتہ ماہرین شامل تھے،کا مقصد اسٹیک ہولڈرز کےساتھ انتخابات سے قبل اہم سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پرمکالمہ کروانا اور اہم مسائل پر سیاسی جماعتوں کے موقف کے بارے میں عوامی آگاہی میں اضافہ کرنا تھا۔
مکالمے میں شہریوں کے اظہار رائے کے حق کے تحفظ اور ملک میں بہتر احتساب اور گڈ گورننس کے لیےمنشور کی اہمیت پر بھی گفتگو کی گئی۔مکالمے میں جن معروف ماہرین نے شرکت کی ان میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سماجی رہنما سرور باری ، ڈیجیٹل رائٹس کی ماہر صدف خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار افتخار شیرازی، سابق ترجمان وزارتِ خزانہ مزمل اسلم اور معروف صحافی فریحہ عزیز جبکہ سامعین میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔ چونکہ پاکستان کو عام انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے کثیر جہتی چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سب سے نمایاں مسئلہ قومی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں معاشی حکمت عملی پر توجہ دینے کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ ”گمبھیر اقتصادی صورتحال کی وجہ سے معاشی بحالی اور استحکام کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام ابھی تک کے تما م پروگراموں سے سخت ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں جامع حکمت عملی پر توجہ دیں ۔”سیاسی جماعتوں کے منشور میں حقیقی عوامی ضروریات کی ترجمانی پر بات کرتے ہوئے، سرور باری نے کہا کہ” سیاسی پارٹیوں کے منشور کی تشکیل عام طور پر اشرافیہ کے ایک منتخب گروپ کے ذریعے کی جاتی ہے جو عام آدمی کی متنوع ضروریات اور شہریوں کی خواہشات کو نہیں سمجھ سکتے ۔
اس عمل میں شہریوں کی بامعنی شرکت کی عدم موجودگی کا نتیجہ اکثر ایسے منشوروں کی صورت میں نکلتا ہے جو عوام کی اصل ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، منشور میں واضح مقاصد اور شہریوں کی اہم ضروریات کے درمیان واضح تفاوت سامنے آتی ہے۔”صدف خان نے جمہوری عمل میں شہریوں کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ”سیاسی وابستگی فطری طور پر منفی نہیں ہے؛ ایک ایسے ماحول کو فروغ دینا جو اس حق کو تسلیم کرتا ہو اور اس کا احترام کرتا ہو، ایک مضبوط جمہوری ثقافت کے فروغ کے لیے اہم ہے۔
"ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر نت نئی پابندیوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں سامنے آنے والے مسائل اور ان کے شہریوں پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، فریحہ عزیز نے مزید کہا کہ "معاشی خوشحالی اور شہریوں کو بااختیار بنانے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کا فائدہ اٹھانے کی طرف عالمی رجحان قابل ذکر ہے۔ بدقسمتی سے، ہم ڈیجیٹل پلیٹ فارمزپر پابندیاں لگا کر اس اہم ذریعے سے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں، ان پابندیوں کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور پاکستانی شہریوں کے لیے مواقع میں کمی واقع ہوتی ہے۔”
میڈیا کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے، افتخار شیرازی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ "پاکستان میں میڈیا کا ایک واچ ڈاگ کے طور پر کردار میڈیا ہاؤسز کی طرف سے قائم کردہ مخصوص ادارتی رہنما خطوط کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر آئے روز بدلنے والے میڈیا ریگولیٹری فریم ورک کی وجہ سےمشکلات کا شکار ہورہا ہے۔ ایسے سخت فریم ورک کی وجہ سے پیچیدہ ماحول پیدا ہوتا ہے اور صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔”اکاؤنٹیبلٹی لیب پاکستان کی جانب سے پاکستان بھر میں اسی طرح کے مکالمے منعقد کیے جائیں گے جن کا مقصد بعد ازاں انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت کی کارکردگی کو اس کے دیئے گئے منشور کی روشنی میں جوابدہ ٹھہرانا اور ملکی اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔