اسلام آباد۔31جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیرتوانائی انجینئرخرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ چودہ ماہ کے دوران ملک میں 5063 میگاواٹ نئی بجلی سسٹم میں شامل کی ہے،
وزیراعظم محمدشہبازشریف نے1263میگاواٹ کاافتتاح کیا جبکہ2018 والی سابقہ حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی منصوبوں پربالکل توجہ نہیں دی جس سے منصوبے تاخیرکا شکارہوئے ۔ پیر کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ تھر کا کوئلہ اب عالمی سطح پر متعارف کروا دیا گیا ہے اور تھرکے کوئلے سے1980میگاواٹ بجلی کی پیداوارکاآغازہواجو ملکی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
انہوں نے کہا کہ شنگھائی الیکٹرک،کروٹ اورکراچی میں بھی بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کاآغازہوا جس سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے گوادر کو 100 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ بھی طے کروایا اور ایران سے جیونی گوادر تک بجلی کی لائن کا منصوبہ شروع کیا گیا ، تھر مٹیاری کی ٹرانسمیشن لائن کو مکمل کر کے چلایا گیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سکھی کناری ،لاہور نارتھ ٹرانسمیشن لائن کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ گزشتہ دورحکومت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا گردشی قرضہ تھا، وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کے دور میں اس میں نمایاں کمی ہوئی اور گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ1200 میگا واٹ کے سی5نیوکلیئرپاورپلانٹ کے معاہدے پر دستخط ہوچکےہیں اور شمسی توانائی کے منصوبوں کیلئےبھی فریم ورک بنالیاگیاہے ۔
وزیر توانائی نے کہا کہ شمسی توانائی کے پلانٹ لگانے میں مشکل ضرور آئی لیکن آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے لیے تمام بنیادی کام کر کے جا رہے ہیں جس سےاس حکومت کو فائدہ حاصل ہو گا، انہوں نے مزید کہا کہ شمسی توانائی میں بھی بہتری کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں سال ملک میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے صورتحال بہتررہی بس عید الاضحی سے پہلے ہیٹ ویو میں کچھ دن مشکل آئے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین جو کہ ٹوٹل صارفین کا 55 فیصد بنتا ہے کے لئے بجلی مہنگی نہیں کی گئی ہے۔خرم دستگیرنے کہا کہ 30 جون 2023 کو گردشی قرضہ 157 ارب روپے کم تھا ، ڈسکوز میں کرپٹ افسران بھی گردشی قرضے کی بڑی وجہ ہیں۔وزیر توانائی نے کہا کہ ٹیرف برابر رکھنے کے لئے اس سال کراچی کے صارفین کو 171 ارب کی سبسڈی دی جائے گی ، لیکن برابر ٹیرف کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی کیونکہ صرف کراچی کو آئندہ اتنی زیادہ سبسڈی نہیں دی جا سکے گی ،
بلوچستان کے کاشتکاروں کے لئے 88 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور سبسڈیز گردشی قرضے کا حصہ ہیں۔ خرم دستگیر نے کہا کہ صوبے بجلی کمپنیاں خریدنے کو تیار نہیں ہیں صرف سندھ نے حیسکو اور سیپکو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کمپنیوں کی نجکاری کے لئے حصوں میں آگے بڑھنا پڑے گا ۔