موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کا فطرت کی بحالی و تحفظ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ،اقوامِ عالم کو موسمیاتی تبدیلیوں کو مات دینے کے لئے تیز رفتار کوششوں کی ضرورت ہے ، ملک امین اسلم کاموسمیاتی تبدیلی کے متعلق سربراہی اجلاس سے خطاب

148

اسلام آباد۔22اپریل (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے دنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیشِ نظر حقیقی نتائج دکھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بین الااقوامی برادری کو ’’ڈو مور اینڈ ٹاک لیس‘‘ کی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کا فطرت کی بحالی و تحفظ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا میں کوئی ویکسین ایجاد ہو سکتی ہے، اقوامِ عالم کو موسمیاتی تبدیلیوں کو مات دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ ، اور تیز رفتار کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی نے 22 اپریل کو واشنگٹن میں امریکی حکومت کے عالمی موسمیاتی تبدیلی کے متعلق سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کٹھن حالات میں یہ اجلاس رکھ کر بہترین اقدام اٹھایا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ یہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر عمل پیرا ہونے اور زمین پر حقیقی نتائج دکھانے کا وقت ہے۔یہ امر قابل غور ہے کہ کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ محض ایک فیصد ہے مگر اس کا شمار دنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثرہیں۔تاہم اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان جغرافیائی محل و وقوع کے اعتبار سے ایسے مقام پر واقع ہے جو ہر صورت موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ دن بدن تیزی سے پاکستان کےشمال کی جانب ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئر ز تیزی سے پگھل رہے ہیں، خشک علاقہ جات کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، ہیٹ ویوز آرہی ہیں اور گزشتہ برس زمین کی گرم ترین جگہ بھی پاکستان میں ہی ریکارڈ کی گئی ۔جبکہ جنوب میں ہمارا ساحل سطح سمندر میں اضافہ کے باعث متاثر ہو رہا ہے۔ کرونا وائرس کے اس سنگین دور میں ہمیں ان تمام موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے جس سے دنیا کی پانچویں بڑی آبادی(220ملین لوگ)بری طرح متاثرہو رہی ہے۔

معاونِ خصوصی ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان ان مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود ان سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار اور پر عزم ہونے کے ساتھ ساتھ اس امر میں نمایاں اور اہم کردار ادا کررہا ہے اور اس کے لیے بہترین ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ موسمیاتی مسائل کا حل فطرت میں ہی پوشیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس معاملے میں قدرتی حل پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور اسی پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان اس حقیقت سے واقف ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے متعلق مناسب اور بر وقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اس کے اثرات مستقبل قریب میں ختم ہونے کے بجائے بڑھ جائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے فطرتی حل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کے مطابق خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری سونامی منصوبہ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد اب ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت ملک بھر میں 10 بلین درخت لگانے اور اس کے ساتھ ساتھ۱یک ملین ہیکٹرسے زائد جنگلات کو ان کی قدرتی حالت میں واپس لانے کا اقدام اٹھایا ہے۔ ملک امین اسلم نے کہا کہ کووڈ کے دنوں میں ہم نے پروٹیکٹیڈ ایریا اینیشی ایٹیو کا اعلان کیا جس کے تحت نیشنل پارکس کی تعداد 30سے بڑھ کر 45 ہو چکی ہےاور اس اقدام سے7500 مربع کلومیٹر رقبہ پروٹیکٹڈ ایریاز میں شامل کیا گیاہے۔

ملک امین اسلم نے کہا کہ پوری دنیا اس وقت پانی کے تحفظ کے متعلق خدشات سے بخوبی آگاہ ہے، پاکستان میں بھی واٹر سیکیورٹی کا مسئلہ زیرِ غور لایا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ریچارج پاکستان کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے جس میں گزشتہ دہائیوں سے نظر انداز اس مسئلہ کو حل کرنے کے بہترین اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس پروگرام کے تحت ہر سال پاکستان میں آنے والی پانی کی بڑی کھیپ اور غیر متوقع مون سون بارشوں کو ضائع ہونے کے بجائے باقاعدہ اقدامات کے ذریعہ بہترین مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں، ریچارج پاکستان کے تحت پانی کو نقصانات کی بجائے فوائد کے لیے استعمال کرنے کا بیڑہ اٹھایا جا رہا ہےتاکہ زراعت سے متعلق مسائل بھی حل کیے جا سکیں۔معاونِ خصوصی نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کے مسائل کے باعث سب سے زیادہ نقصان زرعی زمینوں اور ان کی پیداوار سے ہو رہا ہے۔ یہ ایسا وقت ہے کہ کسان نہیں جانتے کہ کس طرح تیزی سے بدلتے مون سون بارشوں کے سلسلے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق زرعی اجناس کی پیداوار کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرنا ہے۔

انہوں نے اجلاس میں خطاب کے دوران بتایا کہ پاکستان میں کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچر پروگرام متعارف کروایا گیا ہے۔جس میں فی الحال 8 تحصیلیں شامل ہیں ۔ منصوبہ کے مطابق اس میں مزید علاقوں کو شامل کیا جائے گا مگر اس امر میں مناسب ٹیکنالوجی کا استعمال درکار ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا جن کو کووڈ کے دور میں بد ترین معاشی مسائل کا سامنا تھاجس سے سینکڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان نے بے روزگار افراد کے لیے گرین اسٹیمولیس پروگرام کا اعلان کیا ، جس کےتحت فطرت، اس کے تحفظ کے ساتھ ساتھ گرین جابز کو بھی زیرِ غور رکھا گیا۔ کووڈ کے دوران ملک بھر میں بیر روزگار ہونے والوں کو 85000 نوکریاں فراہم کی گئیں۔تاہم اب گرین اسٹیمولس پروگرام میں مزید 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے مزید گرین جابز فراہم کرنے کا ارادہ کیاگیا ہے۔

علاوہ ازیں، امین اسلم نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک سے آلودگی کے خاتمہ کے لیے رینیو ایبل انرجی کا راستہ اختیار کرنے کا مضبوط ارادہ رکھتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ 2030 تک 60 فیصد تک صاف توانائی کے ذرائع استعمال میں لائیں جبکہ الیکٹرک وہیکل پالیسی متعارف کروائی گئی ہے جس کے تحت ہم 2030 تک 30 فیصد تک اپنی ٹرانسپورٹ انڈسٹری میں الیکٹرک وہیکل کا استعمال عمل میں لائیں گے کیونکہ ٹریفک کا دھواں اس وقت دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کی اہم وجہ ہے۔ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات ہماری مضبوط سیاسی قیادت اور آنے والی نسلوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کو بچانے کے ارادہ کی عکاسی کرتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ یہ اجلاس بہترین وقت پر رکھا گیا ہے مگر اس کے ذریعہ یہ پیغام جانا ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم ہمیں باتوں سے زیادہ زمین پر کام کر کے دکھانے کی ضرورت ہےاور اس سلسلے میں فنڈنگ بھی ایک اہم نقطہ فکر ہے جس سے بہت سے مسائل کیے جاسکیں گے۔ اس موضوع پر نومبر 2021ء گلاسگو میں ہونے والے اجلاس میں بھی مزید تبادلہ خیال کیا جائے گا۔تاہم کلائمیٹ فنانسنگ کو تین طریقوں سے یقینی بنایا جائے، سب سے پہلے تو 10 سال سے شاملِ ذکر 100 بلین ڈالر کی فنانسنگ کو یقینی بنایا جائے۔

اس کے علاوہ، اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا عمل اختیار کرنے کے لیے دیئے جانے والے فنڈز کو کلائمیٹ فنانس نیگوسی ایشن پروسیس میں اہم سطح پر موضوعِ گفتگو بنایا جائے اور اسے پاکستان اور اس جیسے ایسے تمام ممالک کو فراہم کیا جائے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ صاف توانائی کے طریقہ کار استعمال کرنے کے لیے بہترین ٹیکنالوجی تک رسائی کے لیے ٹرانزیشن فنانس کو بھی زیرِ غور لایا جائے۔

معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا کہ ہماری حکومت اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور اس کے لیے اہم اقدامات اٹھانے کے لیے کو شاں ہے اور ہم یہ اقدامات عالمی تعاون اور کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ یہ وقت ہے کہ اس امر میں کیے جانے والے دعوؤں کو زمینی حقیقت دی جائے۔کیونکہ پوری دنیا کے پاس اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کا کوئی اور راستہ نہیں اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا میں کوئی ویکسین ایجاد ہو سکتی ہے۔