موسمیاتی تبدیلی اور اثرات

موسمیاتی تبدیلی اور اثرات
تحریر
مطیع الر حمٰن
پاکستان اور دیگر دنیا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات موجودہ دور کے انسانوں اور بالخصوص پالیسی سازوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ ان واقعات کو قدرت کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کے متعلق خبردار کرنے کا طریقہ بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس طرف اتنی سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی جتنی توجہ کا یہ شعبہ مستحق ہے۔ دنیا میں اب کہیں یہ احساس عام ہو رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مہلک اثرات مقامی سطح تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ عالمگیر نوعیت کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے واقعات کے تسلسل کے ساتھ وقوع پزیر ہونے سے مقامی آبادیوں کے مفلوج ہوجانے کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقے بھی ان کی زد میں آ جائیں گے۔ سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق و اختراع، منصوبہ بندی و فیصلہ سازی اور رابطہ کاری سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی و طاقت کے حصول اور عالمگیر رسائی کے علاوہ کائنات کی تسخیر میں نئی منازل متعین کرنے کے باوجود آج کا انسان کسی بھی قدرتی آفت کے سامنے ہر بار بے بس نظر آیا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمیں خود کو قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز رکھنا ہو گا اور موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی خرابی کی وجہ بننے والے عوامل پر قابو پانا ہوگا تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو ناگہانی آفات کے خطرات سے کسی حد تک محفوظ بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں ایسے طریقے اور راستے اختیار کرنا ہوں گے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ اور مطابقت پزیری کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ پائیدار ماحول کے لئے بھی ساز گار ہوں۔اس وقت درجہ حرارت میں اضافہ ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے اور اس کی بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے۔اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو نہ روکا گیا تو آنے والے برسوں میں درجہ حرارت مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔درجہ حرارت بڑھنے سے جن واقعات میں اضافہ ہوگا ان میں گلیشرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ،سیلاب اور خشک سالی شامل ہیں۔گلیشرز پگھلنے سے آنے والی چند دہائیوں میں دریاﺅں کے بہاﺅ میں مسلسل اضافہ ہوگا اور اس کے بعد کی دہائیوں میں اس بہاﺅ میں کمی واقع ہوگی۔ بہاﺅ میں اضافے کے باعث سیلاب کی صورتحال درپیش ہوگی جبکہ بہاﺅ میں کمی کی صورت میں خشک سالی ہوگی۔ دونوں صورتوں میں فصلوں کو نقصان ہوگا جس سے زراعت متاثر ہوگی۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی47 فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے جبکہ جی ڈی پی کا 22 فیصد حصہ زراعت سے آتا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث گندم ، چاول ، کپاس اور گنے کی پیدوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ علاقائی موسمیاتی ماڈل نے خشک اناج کی پیدوار میں 15 سے20 فیصدتک جبکہ لائیوسٹا ک کی پیدوار میں 20 سے 30 فیصد کمی کی پیشنگوئی کی ہے۔ انٹر نیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشاءشدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آجائے گا اور 2050ء تک گندم کی پیدوار میں 50 فیصد کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی میں پانی، زراعت اور لائیوسٹاک وغیرہ، جنگلات اور حیاتیاتی تنوع، قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری، پہاڑ، ذرائع معاش، انسانی صحت، توانائی، ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے اہم شعبوں سے متعلق تقریبا 120 سفارشات تیار کی گئی ہیں۔ اس پالیسی میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کی نشاندہی کے ساتھ حل بھی پیش کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے آگاہی و شعور کے لئے سائنس دانوں اورپالیسی سازوں کا سیاست دانوں سے رابطہ بہتر بنا نے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خطرات اور ان سے متعلق نئی تحقیق سے انہیں آگاہ کرسکیں۔ایک اندازے کے مطابق دہشتگردی سے پاکستانی معشیت کو سالانہ 1 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے معشیت کو 6 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہورہا ہے۔ یوں موسمیاتی تبدیلی دہشتگردی سے بھی بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان دنیا میں عالمی حدت کا باعث بننے والی زہریلی گیسوں کے کل اخراج کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کرتا ہے اور اس سلسلے میں ان زہریلی گیسوںکے اخراج کرنے والے تمام ممالک میں 135ویں نمبر پر ہے، جو انتہائی نچلی سطح ہے تاہم پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن خطرات سے دوچار ہے جن میں آنے والی دہائیوں میں مزید شدت آئے گی۔ آج دنیا ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے صنعتی ترقی حاصل کرنے کے لیے قدرتی وسائل کے غیرپائیدار استعمال کے باعث عالمی حدت میں پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران ہونے والی تیز رفتار اضافے کی وجہ سے مختلف موسمی خطرات کا شکار ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں واقع لاکھوں گلیشئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے باعث دنیا کے مختلف ممالک عام ہوتے ہوئے تباہ کن سیلابوں کے خطرات سے دوچار ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک کی کمزور معاشی صورتحال کے باعث یہ ممالک ان خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ترقی یافتہ ممالک پسماندہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کو سائنسی ، تکنیکی اور مالی مدد فراہم کرکے ان معاشی طور پر کمزور ممالک کو موسمی خطرات ، خاص طور پر سیلاب،تیز اور بے ترتیب بارشوں کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے قابل بناسکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں موسمیاتی تباہکاریوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو تقریباً 26 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے اور ان نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے 35 ارب ڈالر درکارہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں زراعت، توانائی اور پانی کے شعبے شدید دباو¿میں ہیں۔ اگر ان خطرات پر قابو نہیں پایا گیا تو پاکستان کوشدید غذائی ، توانائی اور پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بھوک اور بدحالی سے اموات میں اضافہ کے علاوہ معیشت اور پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے شروع کیے گئے ترقیاتی پروگرام بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ بارشوں میں بے ترتیبی اور کمی کے باعث صحرا بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے سرسبز زمین میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی ک±ل زمین کا تقریباً 41 ملین ہیکٹرز یا 51 فیصد حصہ صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے اور اس میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث کمی اور بے ترتیب ہوتی ہوئی بارشوں کے نتیجے میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے صحرا پذیری کو روکنے کے لیے شجرکاری ایک اہم مو¿ثر اور سستا طریقہ ہے ۔ مختلف موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے مطابقت پزیری انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے لے خاص کر زندگی گذارنے کے طریقوں میں بنیادی مثبت تبدیلی لانا ہوگی۔اس کے علاوہ ملک میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے، جنگلی حیات کے تحفظ اورا±س کو معدوم ہونے سے بچانے کیلئے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکموں کو مل کر خاطر خواہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو روک کر اور اس کے رقبے میں اضافہ کرکے معاشی و سماجی نقصانات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال پیرس میں دوہفتہ کی عالمی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں پاکستان نے درپیش موسمیاتی خطرات سے عالمی برادری کو آگاہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری پاکستان کی ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مالی اورتکنیکی مدد کرے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تحفظ اور موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم کا مظاہرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب تک سیاسی نمائندگان ماحول کے بگاڑ کو روکنے اور بڑھتے ہوئے موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ماحولیاتی اور موسمیاتی چیلینجز میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ملک میں اس سلسلے میں پالیسیاں موجود ہیں تاہم ان کو عمل میں لانے کے لیے سیاستدانوں کی جانب سے سیاسی عزم کا مظاہرہ اور کردار ناگزیر ہے۔ ملک میں موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی اور اس کو عمل میں لانے کے لیے فریم ورک تیار کیا گیا ہے تاہم موسمی خطرات جیسے سیلاب، گرمی کی لہر، بے ترتیب اور بے موسم بارشوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اس پالیسی میں دی گئیں تجاویز کو عمل میں لانا ضروری ہے۔ صوبوں کو ان تجاویز کی روشنی میں اپنے اپنے سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگراموں میں منصوبے بنانے ہوں گے تاکہ ان موسمی خطرات کے منفی اثرات پر قابو پاکر معیشت کو پائیدار بنایاجاسکے۔ کسی بھی ملک میں زمین کے ک±ل رقبے پر کم از کم بارہ فیصد جنگلات ہونے چاہیں مگر پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکاہے، جس کی وجہ غیر قانونی کٹائی ہے۔ وفاقی وزارت نے جنگلات کو فروغ دینے کے لیے نیشنل فاریسٹ پالیسی بھی تیار کی ہے۔سابق وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دنیا میں موسمیاتی اور ماحولیاتی لحاظ سے درپیش چیلنجز کے پیش نظر ایسے نئے عالمی معاشی نظام کی ضروت ہے جس کی مدد سے معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے موجود قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کو مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے روک کر ماحول کے بگاڑ پر قابو پایا جاسکے۔ موجودہ معاشی نظام کے تحت، خاص طور پر امیر ممالک میں، غیر پائیدار صنعتی ترقی حاصل کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مختلف معاشی، سماجی اور ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا ہے۔ موجود معاشی نظام سے امیر ممالک میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس کے نتیجے میں غریب ممالک میں غربت، بھوک، بیماریوں، اور عام لوگوں کے معاشی قرضوں اور موسمیاتی تبدیلی کی تباہکاریوں میں خوفناک حدت تک اضافہ ہوا ہے۔ ایسے معاشی، سماجی، ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے پائیدار اور ماحول دوست عالمی معاشی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں ماحول دشمن صنعتوں سے خارج ہونے والی بلاتعطل زہریلی گیسوں اور دھوئیں کے اخراج سے عالمی ماحول میں تباہ کن بگاڑ آنے کے علاوہ عالمی حدت میں حیرت انگیز تک اضافہ ہواہے، جس کی وجہ سے موسم بے ترتیب ہو گئے ہیں جس سے بے موسم اور بے اعتبار بارشیں ہورہی ہیں، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، تباہ کن سیلاب کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں جس کی مثال حالیہ بے ترتیب اور شدت سے ہونے والی مون سون کی بارشیں اور کراچی میں گزشتہ سال گرمی کی شدید لہر ہیں۔ امریکا، یورپ کے تمام ممالک سمیت دنیا کی تمام ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں کو جاری رکھنے کے لیے زیرزمین موجود ایندھنوں یا نامیاتی ایندھنوں، جیسے تیل اور گیس کے بجائے متبادل اور ماحول دوست ذرائع پر مکمل طور پر منتقلی موسمیاتی خطرات کو کم یا روکنے کے لیے ناگزیر ہے بصورت دیگر اس روئے زمین پر انسانوں اور تمام جاندار اور غیرجاندار مخلوق کا زندہ رہنا انہتائی مشکل ہوسکتا ہے۔ تیزی سے گھٹتے ہوئے قدرتی وسائل کا غیرپائیدار استعمال ماحولیاتی بگاڑ کی اہم وجہ ہے جو دنیا کے تمام ممالک کی معاشی ترقی کے لیے شدید خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ ان خطرات پر قابو پانے کے لیے ہمیں اپنے رہن سہن کے غیر پائیدار طور طریقوں کو تبدیل کرکے ان طریقوں کو ماحول دوست بنانا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ کرہ ارض غیر آلودہ اور وافر مقدار میں موجود قدرتی وسائل کا خطہ رہے۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زاہد حامد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ان موسمی خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس سلسلے میں ان سے نمٹنے کے لیے صوبوں کے ساتھ ملکر اقدامات کررہی ہے جبکہ اس سلسلے میں عالمی سطح پر بھی تعمیراتی ڈائیلاگ کے عمل میں بھرپور حصہ لے رہاہے۔پاکستان کو شدید موسمی خطرات کے پیش نظر وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی ہر ممکن اقدامات کررہی ہے تاکہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصانات پر قابو پایاجاسکے۔ ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے عوامی سطح پر ان مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ماحولیاتی مسائل اور ان سے نمٹنے کے لیے ممکنہ حل پر لوگوں میں شعور پیداکرکے اِن مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔