مہمند ڈیم منصوبے پر کام آئندہ ہفتے شروع ہو جائےگا، چیئرمین واپڈا

174

اسلام آباد ۔ 19 مارچ (اے پی پی) چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید مزمل حسین نے کہا ہے کہ مہمند ڈیم منصوبے پر کام آئندہ ہفتے شروع ہو جائے گا،کنٹریکٹر کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پی سی ون سے 18 ارب روپے کم کرا لئے ہیں، ڈیم کی تعمیر سے پشاور، چارسدہ اور مردان میں سیلاب کا خطرہ دور ہو جائے گا، تربیلا IV توسیع منصوبے سے پیداوار جاری ہے اور 30 ارب روپے کاریونیو حاصل ہو گا، گولن گول پاور پراجیکٹ مکمل ہونے کے باوجود چترال میں گرڈ سٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے بجلی علاقے کو نہیں مل رہی۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین نواب یوسف تالپور نے کی جبکہ اجلاس میں محمد فاروق اعظم ملک، شیخ راشد شفیق، علی نواز اعوان، چوہدری جاوید اقبال وڑائچ، نورین فاروق خان، حامد حمید، خواجہ محمدآصف کے علاوہ وزارت آبی وسائل، واپڈا، فیڈرل فلڈ کمیشن ، ارسا اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ چیئرمین واپڈا نے اجلاس کو بتایا کہ ستمبر 2017 ءسے اپریل 2018ءتک مختلف منصوبوں سے 2487 میگاواٹ بجلی سسٹم میں واپڈا نے شامل کی ہے۔ مہمند ڈیم منصوبہ 40 سال سے تاخیر کاشکار تھا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی اور 12 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیاجا سکے گا۔ منصوبے کی مجموعی لاگت کا پی سی ون 309 ارب روپے تھا ۔ ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنیوں سے مذاکرات کے بعد 18 ارب روپے ہم نے کم کرائے ہیں اور اب یہ 291 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ اگر 18 ارب روپے واپڈا کو دے دیئے جائیں تو بلوچستان میں نولانگ ڈیم کامنصوبہ بھی مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے پر کام اگلے ہفتے شروع ہوجائے گا۔ رابطہ سڑکیں اور کالونی دسمبر 2020ءتک بن جائے گی۔ سپیل وے کی تعمیر نومبر 2023ءتک ہو گی جبکہ آبپاشی کا نیٹ ورک دسمبر 2023ءتک مکمل ہو گا۔ ڈیم کا پاور ہاﺅس جولائی 2024ءمیں مکمل ہو گا اور جولائی میں ہی پانی کی بھرائی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے لئے 844 ایکڑ اراضی درکار تھی، مقامی افراد نے زمین منتقل کردی ہے۔ 37 فیصد فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ 63 فیصد فنڈ کا انتظام واپڈا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ گولن گول پاور پراجیکٹ مکمل ہو رہا ہے ۔ چترال کی بجلی کی ضرورت تقریباً18 میگاواٹ ہے لیکن پیسکو کی طرف سے گرڈ سٹیشن کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے چترال کو اس منصوبے سے مکمل بجلی فراہم نہیں کی جارہی اور ہم نے تیمر گرہ تک بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی ہوئی ہے۔ چترال سے لوئر دیر تک 180 کلومیٹر لائن بچھا کر بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھی کینال سے ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے علاقوں میں پانی کی دستیابی یقینی بنائی گئی ہے۔ واپڈا نے ستمبر 2017 ءسے اپریل 2018ءتک جو بجلی سسٹم میں شامل کی ہے اس سے 86 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد پانچ بار رکھا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کے لئے ہم نے وفاقی حکومت سے 232 ارب روپے کی فراہمی کی درخواست کی ہے۔ ڈیم کے لئے پہلے مرحلے میں474 ارب روپے کی ضرورت ہو گی باقی رقم واپڈا خود فراہم کرے گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 90 فیصد زمین حاصل کی جاچکی ہے اور لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کافارمولا بھی طے ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے بارے میں یہ کہنا کہ 84 ارب کا منصوبہ 500 ارب روپے تک پہنچ گیا درست نہیں ہے۔2005ءکے زلزلے کے بعد اس منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کیا گیا اور 20 کلومیٹر لمبی سرنگ کی بجائے 60 کلومیٹر طویل سرنگ تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح ڈیم کی بلندی بھی 13 میٹر بڑھائی گئی ہے ۔ 503 ارب روپے کے پی سی ون کایہ منصوبہ 464 ارب روپے میں مکمل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واپڈا میں ممبر واٹر اور ممبر پاور کی آسامیاں خالی ہیں۔ کسی بھی منصوبہ کی پی سی ون کی منظوری میں تقریباً 26 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تینوں یونٹس تربیلا فور کے توسیع منصوبے کے تینوں یونٹس کام کر رہے ہیں ۔ منصوبے کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں میں حقیقت نہیں ہے۔ اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری آبی وسائل سید مہر علی شاہ نے کمیٹی کو بتایاکہ پچھلے 60 سال میں پاکستان کو سیلاب سے 19 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم بہتر بنانے کے لئے سات مقامات پر ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیاجائے گا۔ 1960ءکے بعد ملک میں کوئی بڑا ڈیم اور بیراج نہیں بنا۔ 2018ءسے 2030ءتک اپنے اہداف مقرر کردیئے ہیں ۔ ہمیں 10ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کرنا ہو گی اور 2030ءتک پی ایس ڈی پی کے مجموعی حجم کا 20 فیصد آبی منصوبوں کے لئے مختص کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت 9.6 فیصد ہے اور 2017-18ءمیں صرف 3.7 فیصد تھا۔ اجلاس کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) فیڈرل فلڈ کمیشن کے معاملات کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی جبکہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے پانی کی دستیابی کے حوالے سے تفصیلی طورپر آگاہ کیا۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ آبی وسائل کے منصوبوں کے لئے فنڈز کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور واپڈا میں ممبر واٹر اور ممبر اپور کی آسامیاں فوری پر کی جائیں ۔آبی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لئے مو¿ثر اور فوری اقدامات کئے جانے چاہیں۔