لاہور۔24مئی (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ درآمدات پر انحصار میں کمی و ” میڈ ان پاکستان ” کا فروغ وقت کی اہم ضرورت، حکومت توانائی کے شعبہ میں خود انحصاری، جدت اور پائیداری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات بروئے کار لا رہی ہے،ہمیں درآمدی ٹیکنالوجی لینے والے نہیں بلکہ معیاری ٹیکنالوجی برآمد کرنے والے بننا ہوگا،حکومت درآمدات کے بجائے برآمدات پر مبنی معیشت کے فروغ کیلئے کوشاں ہے ، پاور سیکٹر میں انڈیجنائزیشن وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمیں ماہرین اور انڈسٹری سے روابط میں بہتری لانا ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز نیشنل گرڈ کمپنی آف پاکستان (سابقہ این ٹی ڈی سی) اور لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے پاور سیکٹر انڈیجنائزیشن روڈ میپ کی تیاری کیلئے قومی مشاورتی ورکشاپ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر منیجنگ ڈائریکٹر پاور پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ کمپنی انجینئر عابد لطیف لودھی، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے بورڈ چیئرمین ڈاکٹر طاہر مسعود، چیف ایگزیکٹو آفیسر کے الیکٹرک سید مونس عبداللہ علوی، نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی کے چیئرمین بورڈ Danpak Kotak اور حکومت، صنعت اور ریگولیٹری اداروں کے سینئر نمائندے بھی موجود تھے۔
ورکشاپ میں جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں مقامی سطح پر تیارہ کردہ اہم برقی آلات کے استعمال میں درپیش چیلنجز اور امکانات بارے مباحثے زیر بحث آئے جبکہ ورکشاپ کے خصوصی سیشنز میں مقامی مینوفیکچررز کی جانب سے قومی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت کا جائزہ لیا گیا۔ وفاقی وزیر سردار اویس احمد خان لغاری نے این جی سی اور لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ورکشاپ کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ این جی سی پاور سیکٹر انڈیجنائزیشن پالیسی کو نافذ کرنے والا پہلا قومی ادارہ ہے اور اس کا سٹریٹجک پروکیورمنٹ ماڈل پہلے ہی مثبت نتائج فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت امپورٹس کے بجائے ایکسپورٹس پر مبنی معیشت کے فروغ کیلئے کوشاں ہے ، پاور سیکٹر میں انڈیجنائزیشن وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمیں ماہرین اور انڈسٹری سے روابط میں بہتری لانا ہوگی۔ انہوں نے واپڈا ، ڈسکوز ، کے الیکٹرک اور سرکاری و نجی بجلی پیدا کرنے والے اداروں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس پالیسی پر عملدرآمد شروع کریں جو کہ نیشنل الیکٹریسٹی پلان 2023-27 کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا یہ میرے لیے اعزاز اور فخر کی بات ہے کہ میں اس نیشنل کنسلٹیٹو ورکشاپ سے خطاب کر رہا ہوں، جو برقی توانائی کے آلات اور اس کی تیاری کے شعبے کی مقامی تیاری سے متعلق ہے، یہ ورکشاپ نہ صرف ہماری خواہشات بلکہ ہمارے عزم کی علامت ہے کہ ہم اپنے توانائی کے شعبے کو خود انحصاری، جدت اور پائیداری کی طرف لے جائیں گے، یہ بروقت اقدام نیشنل الیکٹریسٹی پالیسی 2023-2027 کے تحت پاکستان میں جاری انرجی سیکٹر اصلاحات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس میں درآمدآت پر انحصار کم کرنے اور مقامی استعداد کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے،سرکاری اداروں، صنعتوں اور ماہرین کے اشتراک سے منعقد ہونے والی یہ مشاورتی ورکشاپ خود انحصاری اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی پائیداری میں اہم کردار ادا کرے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ آج پاکستان توانائی کے سفر کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، اگرچہ ہم نے پیداوار کی گنجائش میں قابلِ ذکر اضافہ کیا ہے لیکن ہم اب بھی درآمد شدہ آلات، نظاموں اور تکنیکی حلوں پر انحصار کرتے ہیں، جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈالتے ہیں، عالمی سپلائی چین کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوتے ہیں، ہر درآمد شدہ آلہ جیسے ٹرانسفارمر، سوئچ گیئر یا سرکٹ بریکر محض ایک مصنوع نہیں بلکہ مقامی روزگار، قومی مہارت اور صنعتی بنیاد کو فروغ دینے کا ایک موقع ہے جو ہم نے ضائع کر دیا، ہمیں ” میڈ ان پاکستان” کو فروغ دینا ہو گا ، میں درآمدی ٹیکنالوجی لینے والے نہیں بلکہ معیاری ٹیکنالوجی برآمد کرنے والے بننا ہوگا۔
ورکشاپ کے دوران پاکستان کے پہلے پاور ایکوئپمنٹ مینوفیکچرنگ ڈیش بورڈ کا اجراء کیا گیا، جو ایک رئیل ٹائم ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے جو لوکلائزیشن پر پیشرفت، وینڈرز کی استعداد کی نشاندہی اور سٹریٹجک سرمایہ کاری کے مواقع کی نشاندہی کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ڈیش بورڈ کا افتتاح چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز این جی سی اور لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ایڈوائزر ڈاکٹر فیاض احمد چوہدری، چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل انجینئر وسیم نذیر، منیجنگ ڈائریکٹر این جی سی انجینئر محمد وسیم یونس، چیف ایگزیکٹو آفیسر کے الیکٹرک سید مونس عبداللہ علوی اور دیگر نے کیا۔
سردار اویس احمد لغاری نے پاور ایکوئپمنٹ مینوفیکچرنگ ڈیش بورڈ سے متعلق کہا کہ ڈیش بورڈ کا اجرا خوش آئند ہے اور یہ پاور سیکٹر انڈیجنائزیشن میں معاونت کرے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں این ٹی ڈی سی کے نیشنل گرڈ کمپنی میں تبدیلی پر بھی فخر ہے، جو محض نام کی تبدیلی نہیں بلکہ وژن، کارکردگی اور ادارہ جاتی مقصد میں تبدیلی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ این جی سی کو اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی سمارٹ گرڈ تبدیلی کی قیادت کرے، قابلِ تجدید توانائی کے انضمام کو بہتر بنائے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق آپریشنل لچک پیدا کرے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے سے وابستہ ادارے خریداری کو صرف لاگت کی بنیاد پر نہ دیکھیں بلکہ اسے قومی ترقی کے ایک اسٹریٹجک ذریعہ کے طور پر اپنائیں، مقامی پروڈکٹس کو ترجیح دیں، حکومت مقامی تیار پروڈکٹس کے فروغ کے لیے ہر ممکن تعاون اور علاقائی و عالمی سطح پر ابھرنے میں مکمل مدد فراہم کرے گی ۔ یہ ورکشاپ حکومت، صنعت، اور تعلیمی اداروں کے درمیان دیرپا اصلاحات کے لیے تعاون کی ایک بہترین مثال ہے۔
لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کی قیادت اور اس کی شواہد پر مبنی پالیسی سازی پر توجہ ظاہر کرتی ہے کہ تعلیمی ادارے کس طرح مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں اور اختراعی نظاموں کی پشت پناہی کر سکتے ہیں، ہمارے تعلیمی ادارے مستقبل کے علم کے مراکز ہیں، ہمیں ایسی پڑھی لکھی نسل تیار کرنا ہے جو نہ صرف درآمد شدہ نظاموں کو چلانے کی صلاحیت رکھتی ہو بلکہ پاکستان کی مخصوص ضروریات کے مطابق مقامی حل ڈیزائن کر سکے،برقی توانائی کے آلات کے شعبے کی مقامی تیاری صرف صنعتی اصلاحات نہیں بلکہ قومی سلامتی کا ستون ہے، آج ہونے والی مشاورت ایک واضح حکمتِ عملی وضع کرے گی تاکہ جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے شعبوں میں مقامی مصنوعات کا حصہ بڑھایا جا سکے۔
اس فورم کی تجاویز وزارت کو پیش کی جائیں گی تاکہ وہ آئندہ پالیسیوں اور ضوابطی اصلاحات میں شامل کی جا سکیں،بطور قوم ہمیں آج یہ عہد کرنا ہے کہ ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں "میڈ ان پاکستان” کا مطلب اعلیٰ معیار اور قابلِ اعتماد ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کی ری سٹرکچرنگ بھی کی جا رہی ہے اور انڈیپنڈنٹ سسٹم اینڈ مارکیٹ آپریٹر کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جبکہ انرجی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی بھی جلد فعال کر دی جائے گی جو پاور سیکٹر کے پراجیکٹس کی پلاننگ اور تکمیل کی ذمہ دار ہوگی۔
ڈاکٹر فیاض احمد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ این جی سی کی انڈیجنائزیشن کی حکمت عملی اور اس کے تحت جاری کیے گئے ایجوکیشنل آرڈرز کے باعث قومی زرمبادلہ کی مد میں 10 ملین ڈالر کی بچت کی جا چکی ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ لمز توانائی کے شعبے میں پالیسی سازی، ڈیجیٹل اور ادارہ جاتی تبدیلی کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ دس سالہ انٹی گریٹیڈ جنریشن کیپسٹی ایکسپنشن پلان اور ٹرانسمیشن ایکسپنشن پلان کے تحت آئندہ دس سال میں ٹرانسمیشن سیکٹر میں 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، ہم چاہتے ہیں کہ یہ آلات و میٹیریل پاکستان میں ہی تیار کیا جائے جس سے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔چیئرمین پی ای سی انجینئر وسیم نذیر نے مقامی صنعتوں کا فروغ تیز کرنے میں کونسل کے کردار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مقامی صنعت کی ترقی کیلئے ماہرین اور صنعت کا باہمی تعاون ناگزیر ہے۔
منیجنگ ڈائریکٹر این جی سی، انجینئر محمد وسیم یونس نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاور سیکٹر انڈیجنائزیشن پلان کے اہداف اور نفاذ کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا اور اس کی کامیابی کے لیے ادارے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ این جی سی نے مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ مئی 2022 میں ادارے نے مقامی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسی متعارف کرائی اور اس نے ابتک مقامی صنعتوں کو 2 ارب روپے کے ایجوکیشنل آرڈرز جاری کئے ہیں جن میں سے صرف پچھلے تین برسوں میں 781 ملین روپے کے ایجوکیشنل آرڈرز شامل ہیں۔ 2023 میں ادارے نے اپنی ٹائپ ٹیسٹ پالیسی میں بھی نرمی کردی۔ یہ اقدامات وزارت تجارت کی طرف سے جاری ایس آر او نمبر 827 کے مطابق ہیں جس کے تحت انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نئے صنعتی اداروں کی رہنمائی اور سہولت فراہم کرتا ہے۔
ورکشاپ کے خصوصی سیشنز میں پاور سیکٹر آلات کی ملکی طلب کو پورا کرنے کیلئے مقامی مینوفیکچررز کی استعداد کا جائزہ لیا گیا جبکہ صنعتوں کے نمائندوں اور ریگولیٹرز نے پاور سیکٹر انڈیجنائزیشن پلان پر عملی نفاذ کے لیے پالیسی سازوں کو اہم سفارشات پیش کیں۔پرووسٹ لمز ڈاکٹر طارق جدون نے کہا کہ لمز موثر پالیسی سازی، جدت اور تبدیلی کے لئے قومی پلیٹ فارم کے طور پر پرعزم ہے۔ ڈائریکٹر لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ اور این جی سی بورڈ ممبر ڈاکٹر نوید ارشد نے کہا کہ لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ذریعے انرجی سیکٹر کی لوکلائزیشن میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
ورکشاپ کے اختتام پر مقامی صنعت کی ترقی کے اہداف، ٹیکنالوجی کی شراکت داری کے ساتھ ساتھ درآمدات کے مقامی متبادل کی تیاری کیلئے قابل عمل اقدامات پر اتفاق کیا گیا اور درآمدی متبادل کے لئے ایک واضح روڈ میپ تشکیل دیا گیا۔ ورکشاپ کا انعقاد الیکٹریسٹی پالیسی 2023-2027کے تحت کیا گیا جو انرجی سکیورٹی اور طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے مقامی استعداد میں اضافے کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ سرکاری اداروں ، نجی صنعتوں اور لمز جیسے تعلیمی اداروں کے مابین مستقل تعاون کے ساتھ ، پاکستان ٹیکنالوجی کی درآمد پر انحصار ختم کرکے انرجی سیکٹر میں خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=601044