فیصل آباد۔16جنوری (اے پی پی):انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے نیشنل پراجیکٹ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر فیصل اقبال نے جبری مشقت اور مزدوروں کی ہجرت کے مسائل پر آگاہی پیدا کرنے میں میڈیا کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا جبری مشقت کے خلاف عوامی شعورپیدا کرنے اوراس میں ملوث مافیاز کی جوابدہی کیلئے نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام امریکی محکمہ محنت ( یو ایس ڈی او ایل) کے تعاون سے فیصل آباد میں منعقدہ دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی جو اس کے "برج” پراجیکٹ کا حصہ تھی۔ ورکشاپ کا مقصد پاکستان میں جبری مشقت کے خاتمے اور منصفانہ بھرتی کے طریقوں کو فروغ دینا ہے۔
ورکشاپ میں پرنٹ، الیکٹرانک، ریڈیو اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے 30 صحافیوں نے شرکت کی ۔ جاری پریس ریلیز کے مطابق پاکستان میں جبری مشقت ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے سد باب کیلئے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد مزدور استحصالی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بیرون ملک مزدوری کیلئے جانے والے افراد جبری مشقت کا شکار ہیں کیونکہ ملک سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے استحصال اور جبری مشقت کا شکار ہونے کے خطرات دیگر مزدوروں کے مقابلے میں تین گنا بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پچھلے ایک عشرے میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی روزگار کے لئے بیرون ملک خصوصاً خلیجی ممالک ہجرت کر چکے ہیں جواس مسئلے کو بڑی شدت سے واضح کرتا ہے۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں جبری مشقت کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن اندازہ ہے کہ 30 لاکھ سے زائد افراد اس مسئلے کا شکار ہیں،اس لئے میڈیا کو ان مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لئے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے اجرت کی روک تھام، قرض کی غلامی اور استحصالی کام سمیت آئی ایل او کے جبری مشقت کے 11انڈیکیٹرز پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ آئی ایل او کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق جبری مشقت سے سالانہ 236 ارب ڈالر کے منافع حاصل کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کی سپلائی چین میں جبری مشقت کے خاتمے سے متعلق بھی شرکاء کو آگاہ کیا۔ایوارڈ یافتہ صحافی اور میڈیا ٹرینر عون عباس ساہی نے ورکشاپ میں میڈیا کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں جبری مشقت اور بیرون ملک مزدوری کیلئے جانے والوں کے مسائل جیسے موضوعات کو ترجیح نہیں دی جاتی حالانکہ یہ لاکھوں افراد اور ملکی معیشت کے مسائل ہیں۔ انہوں نے فیصل آباد جیسے علاقوں میں ان مسائل کی زیادہ سے زیادہ کوریج کی ضرورت پر زور دیاکیونکہ ان علاقوں میں ٹیکسٹائل، زراعت اور اینٹوں کے بھٹوں میں جبری مشقت عام ہے۔
عون ساہی نے مزدوروں کے حقوق اور صنفی حساسیت پر مبنی رپورٹنگ کی اہمیت پر زور دیااور ورکشاپ کے شرکاء کوجبری مشقت کے متاثرین کے انٹرویوز کرنے، ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اوراس سے ایسی خبریں بنانے کی تربیت دی جس سے جبری مشقت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے۔ورکشاپ کا اختتام عملی مشقوں، گروپ ڈسکشن اور انٹرایکٹو سیشنز کے ساتھ ہوا جس میں صحافیوں نے جبری مشقت کے خاتمے اور منصفانہ بھرتی کے فروغ کے لئے بھر پور کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔