نئے اخلاقی قانون پر اعتراضات، افغان حکومت عالمی برادری سے بات کرنے کے لیے پرعزم ہے، ترجمان

142

کابل ۔2ستمبر (اے پی پی):افغانستان کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ اس کا نیا اخلاقی قانون حقوق نسواں بارے کشیدگی پر مبنی بحث کا سبب بن گیا ہے جس پر وہ عالمی برادری سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔ العریبیہ کے مطابق یہ بات طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہی۔انہوں نے کہا کہ افغان حکام عالمی برادری سے نئے اخلاقی قانون کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔حمد اللہ فطرت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان کے تبصروں کا جواب دے رہے تھے جس میں طالبان حکام سے بات چیت جاری رکھنے کی یقین دہانی کروائی گئی، قبل ازیں افغانستان کی وزارتِ اخلاقیات نے کہا تھا کہ وہ مذکورہ قانون پر تنقید پر ملک میں اقوامِ متحدہ کے مشن یو این اے ایم اے کے ساتھ مزید تعاون نہیں کرے گی۔

ترجمان نے اقوام اور تنظیموں پر طالبان حکام سے مثبت انداز میں بات چیت کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشکلات کے حل ، تعلقات کی ترقی اور توسیع کے لیے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کسی بھی ریاست نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس نے حال ہی میں سفارتی سطح پر راستہ بنایا ہے جس میں قطر میں اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں افغانستان پر مذاکرات میں شرکت بھی شامل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ہم طالبان حکومت سمیت افغانستان میں تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے،ہم نے ہمیشہ اپنے اختیار کی پیروی کرتے ہوئے ایسا کیا ۔ ادھر،اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ یہ قانون جس میں خواتین سے مکمل پردہ کرنے اور سرِعام باآوازِ بلند نہ بولنے کا تقاضہ کیا گیا ہے غیر ملکی اقوام اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ معاملات کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔