اسلام آباد۔13اکتوبر (اے پی پی):وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے قومی اسمبلی کو کہا گیا ہے کہ نئے جنگلات کے اگائو اور شجرکاری کے حوالے سے پالیسی سازی میں عوامی نمائندوں کی شرکت سے مثبت اثرات رونما ہو سکتے ہیں،سیلاب سے پہلے شجرکاری، شہروں کو پلاسٹک سے پاک کرنے اور دریائوں میں آلودگی کے خاتمے کے لئے جو منصوبہ بندی کی گئی تھی مگر قدرتی آفت کے بعد اس سلسلے میں فنڈز کی فراہمی میں مشکلات درپیش ہیں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران طاہرہ اورنگزیب کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر و سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ شجرکاری میں سیاسی لوگوں کی شرکت سے فائدہ ہو سکتا ہے، اس معاملے میں سول سوسائٹی اور عوام کی شرکت سے بہتری آسکتی ہے۔
ابھی بھی درختوں کا کٹائو جاری ہے، ہم نے چیف سیکرٹری پنجاب کے ذریعے ایک فیکٹری لگانے کے لئے جنگلات کے محفوظ ذخیرے کا کٹائو رکوایا۔ میر منور تالپور کے ضمنی سوال کے جواب میں وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ دریائے سندھ کے کنارے پر درختوں کے کٹائو کے حوالے سے ہم مداخلت نہیں کر سکتے۔
محکمہ جنگلات سندھ سے اعداد و شمار لے کر ہم بتا سکتے ہیں۔ سیلاب سے پہلے ہم نے جنگلات کے اگائو کے لئے پالیسی شروع کی تھی۔ اس میں شہروں کو پلاسٹک سے پاک کرنے اور دریائوں میں آلودگی کے خاتمے کے پروگرام بھی شامل تھے مگر سیلاب کے بعد اب فنڈز میں مشکل پیش آرہی ہے۔
نزہت پٹھان کے ضمنی سوال کے جواب میں شیری رحمان نے کہا کہ کوئی بھی رکن یہ سمجھتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسی سازی میں منتخب نمائندوں کو شامل نہیں کیا جاتا تو میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو پالیسی سازی میں شامل کرنا چاہیے۔
غلام علی تالپور کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی حکومت کا جو کام ہے وہ کر رہے ہیں۔ مرکز اور صوبے آپس میں تعاون کر سکتے ہیں مگر صوبوں کو کسی بات کا پابند نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ان پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔