نجکاری کا عمل عوامی مفاد کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے شفاف انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں، نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ صحافیوں کو خصوصی بریفنگ

111
نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ صحافیوں کو خصوصی بریفنگ

اسلام آباد۔10اکتوبر (اے پی پی):نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے کہا ہے کہ نجکاری کا عمل عوامی مفاد کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے شفاف انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں، 2020 میں سرکاری کاروباری اداروں کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 7 فیصد کے برابر تھا، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کا بنیادی مقصد ملک میں ہوا بازی کی صنعت کو فروغ دینا ہے، پاکستان ہوا بازی کا علاقائی مرکز بننے کی مکمل استطاعت کا حامل ملک ہے، پاکستان سٹیل ملز کے معاملات وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے جائیں گے اس کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا، حکومت ریگولیٹری کنٹرول کے ذریعے عوامی مفاد کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔

منگل کو یہاں نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ نجکاری کے حوالے سے صحافیوں کو خصوصی بریفنگ دیتے ہوئے نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد نے کہا کہ معیشت کی بہتری کیلئے جتنا کام کرنا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو سکا، 1994ءمیں شروع ہونے والی نجکاری کے کچھ معاملات آج بھی عدالتوں میں زیر التواءہیں، نجکاری کمیشن میں اس وقت بڑے عہدے خالی ہیں جہاں اہل افراد کو لائيں گے۔ نجکاری والے ادارے پاکستان کے عوام کے اثاثے ہیں، دنیا کی بدلتی ہوئی معیشت میں مقابلہ کے لئے ان اداروں کی نجکاری کی ضرورت پیش آئی، نجکاری اس لئے نہیں ہوتی کہ کسی کی خواہش ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت وہی کام کر رہی ہے جو اسے منتخب حکومتیں سونپ کر گئی ہیں، اس سے زیادہ کوئی کام نگران حکومت کے مینڈیٹ میں نہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی ایسا کام کرنے کا ارادہ ہے، نگران حکومت منتخب حکومتوں کے لئے آسانی پیدا کر رہی ہے، ہم وہ فیصلے کر رہے ہیں کہ منتخب حکومت جب آئے تو ان کے سامنے کلیئر پکچر موجود ہو تاکہ ان کے لئے فیصلہ کرنا آسان ہو، ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ آئین و قانون کے تحت ہے۔

انہوں نے کہا کہ نجکاری کے عمل کو شفاف انداز میں جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، 2020 میں سرکاری کاروباری اداروں کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 7 فیصد کے برابر تھا، 15 بڑے اداروں کا خسارہ 2 ہزار ارب روپے سے زيادہ ہے، حکومت نے سرکاری کاروباری اداروں کو 2018 سے لے کر 2022 تک 2542 ارب روپے فراہم کئے ہیں، 2018 میں 414 ارب روپے، 2019 میں 612 ارب روپے، 2020 میں 719 ارب روپے اور 2021 میں 757 ارب روپے فراہم کئے گئے، یہ وسائل سماجی شعبے کی ترقی اور ایم ایل ون و بھاشا ڈیم جیسے قومی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے پر خرچ ہو سکتے تھے جس سے ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ نجکاری کے حوالے سے مشکلات کو کم سے کم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کا بنیادی مقصد ملک میں ہوا بازی کی صنعت کو فروغ دینا ہے، پاکستان ہوا بازی کا علاقائی مرکز بننے کی مکمل استطاعت کا حامل ملک ہے، جون 2023 کے اختتام پر پی آئی اے کے نقصانات کا تخمینہ 713 ارب روپے جن میں سے حکومتی ضمانت پر قرضے کی رقم 263 ارب ہے، حکومت نے بینکوں سے 13 ارب روپے کا قرضہ ستمبر ميں بھی فراہم کیا جبکہ اس کے علاوہ 150 ارب روپے کی رقم حکومت نے پی آئی اے کو گزْشتہ سالوں ميں اپنے وسائل سے فراہم کی، حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ قیمت پر پی آئی اے کی نجکاری کو ممکن بنایا جائے، پی آئی اے کے ماہانہ نقصانات کا تخمینہ 12.70 ارب روپے ہے۔

انہوں نے کہا کہ نجکاری کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ بے بنیاد ہیں، حکومت سالانہ 156 ارب روپے کا خسارہ صرف ايک ادارے ميں برداشت نہیں کر سکتی، ہماری معیشت میں اس کی گنجائش نہیں ہے، پی آئی اے کی نجکاری کے لئے مالیاتی مشیر کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، تمام عمل قانون اور ضابطوں کے اندر شفاف انداز میں مکمل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وہ نظام الاوقات بتا نہیں سکتے لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ اس عمل کو کم سے کم وقت میں شفاف انداز میں مکمل کیا جائے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کو بریفنگ دی ہے، ایس آئی ایف سی نے ہمیں نجکاری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی ، ہم تمام فیصلے ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد میں کر رہے ہیں جو بھی حتمی فیصلہ ہو گا وہ قواعد و ضوابط کے مطابق اور متعلقہ فورمز پر ہی ہو گا۔ مالیاتی مشیر کی رپورٹ کی روشنی میں نجکاری کميشن پی آئی اے کی نجکاری کے بارے ميں حکومت کو حتمی سفارشات دے گا-

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی انتظاميہ یورپ کے لئے پی آئی اے کی پروازیں جلد از جلد شروع کرنے کی کوشش کر ر ہی ہے ، ہميں بتايا گيا ہے کہ دسمبر یا جنوری میں یورپی ریگولیٹرز پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ یورپی مقامات کے لئے پی آئی اے کی پروازیں جلد شروع ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کی صورت میں ملازمین کو مظاہروں کی ضرورت نہیں ہو گی، بیشتر ملازمین کی ملازمتیں بحال رہیں گی، اس حوالے سے انسانی وسائل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ فواد حسن فواد نے کہا کہ ہمارے پائلٹس اعلیٰ مہارت کے حامل ہیں اور مشکل علاقوں میں لینڈنگ اور ٹیک آف کر سکتے ہیں، اسی طرح ہمارے انجینئرز اور معاون عملہ بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے 34 ہوائی جہازوں میں سے 15 گرائونڈ ہیں جن میں لیز پر حاصل ہونے والے 6 جہاز بھی شامل ہیں جن کا خرچہ دو ملین ڈالرز ماہانہ کے قریب ہے۔ سٹیل ملز کی نجکاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادارے کا خسارہ 230 ارب روپے کے قریب ہے، دسمبر 2020 میں اس کی ٹرانزیکشن سٹرکچر کی منظوری ہوئی تھی، تاہم بولی دہندگان کی واپسی اور واحد بولی دہندہ کی صورت میں اس کی نجکاری کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا، یہ پاکستان سٹیل ملز 1950 کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قائم ہوا، اس کی پیداواری استعداد 1.1 ملین ٹن ہے اور اسے 3.1 ملین ٹن تک بڑھانے کی گنجائش موجود ہے، 1.1 ملین ٹن پیداوار کے لئے 585 ملین ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ 3.1 ملین ٹن کی زیادہ سے زیادہ پیداوار استعداد کی صورت میں اس پر 1.4 ارب ڈالرز کی لاگت کا تخمینہ ہے، ماہرین کے مطابق 10 ملین ٹن کی پیداوار کے لئے 300 ایکڑ اراضی پر سٹیل ملز لگائی جا سکتی ہے، پاکستان سٹیل ملز کی معاشی طور پر بحالی ممکن نہیں ہے، یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے لے جا رہے ہیں، چین کی طرف سے سٹیل ملز کے حوالے سے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کی تجویز ہمیں نہیں ملی ہے۔

وزیر نجکاری نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز کے متبادل ایکسپورٹ پراسیسنگ زون بنایا جا سکتا ہے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین اور دیگر اخراجات پر حکومت سالانہ 100 ارب روپے سے زیادہ ادا کر رہی ہے۔ روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کی نجکاری سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تاریخ میں 8 نومبر تک کی توسیع کی گئی ہے۔ اس کی ٹرانزیکشن اور استعمال سے متعلق فیصلہ مالیاتی مشیر کی رپورٹ کی روشنی میں ہو گا، ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، اس کی ایک مرحلہ میں نجکاری ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے واجبات اور اثاثہ جات سے متعلق بیانات کی روشنی میں ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہوئی ہے، اب ہم فری انرجی مارکیٹ کی طرف جا رہے ہیں، بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کے ساتھ ہماری دو میٹنگز ہو چکی ہیں، ہماری پوری کوشش ہے کہ طویل المعیاد بنیادوں پر نجی شعبے کے ساتھ اشتراک کیا جائے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ماڈل پر آگے بڑھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہائوس بلڈنگ، سٹیٹ لائف، فرسٹ وومن بینک اور دیگر اداروں کی نجکاری کا عمل بھی شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے گا، ماضی میں بينکوں کی نجکاری کے بہترین نتائج سامنے آئے تھے، اسی طرح سیمنٹ سیکٹر اور ٹیلی کام سیکٹر کی نجکاری سے بھی بہترین نتائج سامنے آئے ہیں، اس وقت ٹیلی کام سیکٹر میں 197 ملین سبسکرائبر ہيں جو 89 فیصد آبادی کو کور کر رہا ہے، مجموعی قومی پیداوار میں ٹیلی کام سیکٹر کا حصہ 2.7 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم اثاثے بیچ کر آرام سے بیٹھ جائیں، ہم عوامی مفاد کا تحفظ اور اجارہ داری کے خاتمے کو یقینی بنائیں گے، حکومت ریگولیٹری کنٹرول کے ذریعے عوامی مفاد کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔