اسلام آباد۔20اگست (اے پی پی):چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت قابل تجدید توانائی کی ترقی میں چینی سرمایہ کاروں کیلئے مالی مواقع کی تلاش کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں مقررین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے کا مرکز گرین اور ماحول دوست سرمایہ کاری ہوگی جس کے ذریعے کاربن پر مبنی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ مقررین نے کہا کہ چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے پاکستان کو نجی شعبے اور مختلف شراکت داروں کے ساتھ اشتراک کرنا ہوگا۔”سی پیک کے تحت قابل تجدید توانائی کی ترقی: چینی نجی شعبے کیلئے مالی مواقع“ کے موضوع پریہ اجلاس پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور پاکستان چائنہ انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔
اپنے ابتدائی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے نائب سربراہ ڈاکٹر وقار احمدنے کہا کہ قابل تجدید توانائی کی سرمایہ کاری میں چین کا موقف پائیدار ترقی اور صاف توانائی کیلئے مثبت اشارے دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے قابل تجدید توانائی کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے 115 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کے ساتھ اشتراک سے گرین توانائی کے ایجنڈے کو مکمل کیا جا سکتا ہے۔ پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سیدنے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہے اورگرین فنانسنگ کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے گرین ٹرانزیشن کی چین اور پاکستان کے درمیان مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعے ادارہ جاتی طور پر تشکیل ضروری ہے۔
پینل گفتگو میں سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر سی پیک ڈاکٹر حسن دائود بٹ نے کہا کہ عالمی اقتصادی منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے اس لئے پاکستان کے مسائل پر قابو پانے کیلئے پالیسوں کا تسلسل بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ گرین انرجی منتقلی کے فوائد حاصل کرنے اور قومی ایجنڈے کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے چینی ترقی کے ماڈل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس سلسلے میں سیاسی رہنمائوں، ماہرین تعلیم، ماہرین اور وزارتوں کے درمیان ٹیم ورک کےلئے ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔پینل ڈسکشن کے دوران پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے مساوی ترقی (پی آر آئی ای ڈی) کے سی ای او محمد بدر عالم نے کہا کہ توانائی کے منصوبوں کیلئے زمین اور ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کی ضرورت ہوتی ہے ۔
دوسرے پینل مباحثے کے دوران سینئر ایڈوائزر، چائنا تھری جارجز ساثوتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ این اے زبیری نے کہا کہ پاکستان کے مخصوص علاقوں کو چھوٹے صنعتی زون قائم کر کے سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش بنایا جا سکتاہے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے 80 فیصد سولر پینل چین میں تیار کئے جاتے ہیں جبکہ سولر پینلز کیلئے بنیادی خام مال سلیکون ہے جو پاکستان میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ انہوں نے قرار دیا کہ حکومت کو سرمایہ کاری میں رکاوٹوں کو دور کر کے سرمایہ کاروں کو مراعات دینا ہونگی ۔
سپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی حمزہ سعید اورکزئی نے کہا کہ ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ساکھ پیدا کرنے کے لئے ایک عالمی سرمایہ کاری کیس بنانے کی ضرورت ہے جبکہ مارکیٹ میں داخلے کی لاگت کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔مصطفیٰ سید نے اختتامی کلمات میں ایس ڈی پی آئی، پی سی آئی اور پارٹنر تنظیموں پر زور دیا کہ وہ قابل عمل سفارشات کے ساتھ متعلقہ وزارتوں، ڈویژنز اور پالیسی سازوں اور پارلیمنٹیرینز کے ساتھ فالو اپ ڈائیلاگ کا اہتمام کریں تاکہ بہتر شواہد کے ساتھ تبدیلی لائی جا سکے۔