اسلام آباد۔24اکتوبر (اے پی پی):بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت ہندوتوا ذہنیت کی فاشسٹ حکومت نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں اپنی مذموم کوششوں سے تاریخی مقامات اور اداروں کے نام تبدیل کرکے ایک مکمل ثقافتی یلغار شروع کر دی ہے جس کا مقصد علاقے کی سیاسی تاریخ کو نئی شکل دینا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر کے مسلم تشخص کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے مندروں کی ازسر نوتعمیر، کشمیری زبان اور تاریخ کی تبدیلی اور اسے مسخ کرنے اور اہم مقامات کے نام تبدیل سمیت کئی اقدامات کئے ہیں۔
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کی طرف سے مرتب کردہ ایک تازہ ترین انسانی حقوق کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت نے 57 بنیادی ڈھانچے کے اثاثوں جیسے سکولوں، سڑکوں، پلوں اور کھیلوں کے سٹیڈیمز کا نام بھارتی فوج کے نام پر رکھنے کی منظوری دی ہے۔ مقبوضہ علاقے میں سکولوں، کالجوں، سڑکوں اور عمارتوں کا نام بدلنا اسی طرح ہے جیسا بھارتیہ جنتا پارٹی 2014ء سے بھارت کے دیگر علاقوں میں کر رہی ہے جس کا مقصد مغل اثرات کو مٹانا ہے۔
اکتوبر 2019ء میں چنانی۔ناشری ٹنل ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ٹنل بن گئی۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، ایریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو ”جل شکتی” محکمہ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ 26 جنوری 2020ء کو شیر کشمیر پولیس میڈلز کو بہادری اور شاندار خدمات کے لئے جموں و کشمیر پولیس میڈلز کا نام دیا گیا۔ گاؤں اور میونسپل وارڈز کا نام انڈین آرمی، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور پولیس کے نام پر رکھا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزید تبدیلیاں بھی کی جارہی ہیں جن میں گورنمنٹ کالج فار ویمن سری نگر کا نام تبدیل کرکے پروفیسر ریاض پنجابی اور بوائز ہائر سیکنڈری سکول جواہر نگر کا نام پروفیسر حمیدی کشمیری کے نام پر رکھنا شامل ہے، گورنمنٹ ڈگری کالج حیدر پورہ کا نام پدم شری ایوارڈ یافتہ موتی لال کیمو کے نام پر رکھنے کی تجویز ہے۔ لال منڈی روڈ کا نام ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ شاعر زندہ کول یا ماسٹر جی کے نام پر رکھا جاسکتا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام نے 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی تسلط کے بعد سے بھارتی افواج کے شدید جبر کا سامنا کیا ہے، 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کے بعد مقبوضہ علاقہ کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔
اس وقت تقریباً 10 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں جو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں کشمیری اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آبادیاتی تبدیلی کے خدشات کا باعث بنے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں اور کشمیری قیادت کی قید کے ذریعے حاصل کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں بے گناہ کشمیریوں کو بے پناہ مصائب کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 76 سال گزرنے کے بعد بھی نہتے اور معصوم کشمیری عوام آج بھی عالمی برادری اور انسانی حقوق کے علمبرداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔