نوجوانوں کی فکری بیداری میں شیخ ایاز کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، نگران وفاقی وزیر مدد علی سندھی

72
نوجوانوں کی فکری بیداری میں شیخ ایاز کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، نگران وفاقی وزیر مدد علی سندھی

اسلام آباد۔13جنوری (اے پی پی):نگران وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی نے کہا ہے کہ پاکستان کے جمہوری سفر میں شیخ ایاز کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شیخ ایاز کی 100ویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب میں کیا جس کا اہتمام وزارت وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت نے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن اور وزارت اطلاعات و نشریات کے اشتراک سے کیا۔

تقریب میں نگران وفاقی وزراء مدد علی سندھی، مرتضیٰ سولنگی اور جمال شاہ نے شرکت کی۔اس موقع پر مدد علی سندھی نے کہا کہ ملک کے نوجوانوں اور خصوصاً سندھ کے نوجوانوں کی فکری بیداری میں شیخ ایاز کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فیض احمد فیض، حبیب جالب اور شیخ ایاز جیسے دانشوروں نے اس ملک کی بے پناہ خدمت کی ہے۔

مدد علی سندھی نے کہا کہ شیخ ایاز نے ہمیشہ سندھ اور پاکستان کے عوام کی خدمت جاری رکھی، ان کی لگن اور محنت نے آج ملک میں جمہوری اصولوں کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا کہ آج عوام کو جو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں وہ شیخ ایاز کی قربانیوں سے حاصل ہوئے ہیں۔مدد علی سندھی نے کہا کہ تقسیم کے بعد برسوں تک سندھ کے عوام کو حقیقی سیاسی نمائندگی نہیں ملی، اس خلا کو شیخ ایاز کی انقلابی شاعری نے پر کیا۔

انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہونے کی وجہ سے متعدد بار جیل گئے۔ نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ شیخ ایاز کا نام آنے والے وقتوں تک یاد رکھا جائے گا، جب بھی سندھ میں جمہوریت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا ان کا نام شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد لیا جائے گا۔

مدد علی سندھی نے کہا کہ شیخ ایاز نہ صرف سندھی زبان کے شاعر تھے بلکہ ایک نثر نگار اور سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر تھے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز کا شمار پاکستان کے بالعموم اور سندھ بالخصوص سندھ کے ممتاز اور عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سندھی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری، سوانح عمری، ڈرامے اور مختصر کہانیوں پر 50 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ 18ویں صدی کے صوفی شاعر شاہ عبداللطیف نےشاہ جو رسالو کوسندھی سے اردو زبان میں تحریر کیا تھا جو اپنے دائرے کار میں ایک اتھارٹی تسلیم کیا جاتا تھا۔

انہیں ان کے ادبی کاموں کے لیے ستارہ امتیاز ملا اور انہیں "انقلابی اور رومانوی شاعر” کے طور پر جانا جاتا ہے۔2018 میں ایک یونیورسٹی، شیخ ایاز یونیورسٹی قائم کی گئی اور اس کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔