نیب کی 882 ارب کی ریکوریوں کی تفصیلات پی اے سی کو بھجوا دی گئی ہیں، ہائوسنگ سوسائٹیوں اور دیگر اداروں کے متاثرین کو 25 ارب دلوائے گئے ہیں، چیئرمین نیب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بریفنگ

84
Deputy Chairman NAB
Deputy Chairman NAB

اسلام آباد۔14اپریل (اے پی پی):پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس میں پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سیّد حسین طارق، شیری رحمان، احمد خان، شاہدہ اختر علی، خواجہ محمد آصف مشاہد حسین سیّد سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔

اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کو پی اے سی کی طرف سے سوالات بھجوائے گئے جن کے جوابات ہم نے بھجوا دیئے تھے، نیب کی 882 ارب کی ریکوریوں کی تفصیلات بھی بھجوا دی گئی ہیں، ہائوسنگ سوسائٹیوں اور دیگر اداروں کے ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد متاثرین کو 25 ارب دلوائے گئے ہیں، ریکوریوں کا آڈٹ بھی کیا گیا، بعض سقم بھی دیکھنے میں آئے، ہم نے ایک ایک پیسہ کا حساب رکھا ہوا ہے۔

نیب حکام کی طرف سے پی اے سی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2021 تک موجودہ چیئرمین کے دور میں 522 ارب روپے کی ریکوریاں ہوئیں، مارچ 2022 تک یہ ریکوریاں 587 ارب روپے تک پہنچ گئیں۔

رانا تنویر حسین نے کہا کہ نومبر 2021 سے دسمبر 2021 ایک ماہ میں 58 ارب کی ریکوری کہاں سے کی گئی۔ نیب حکام نے کہا کہ ریکوریاں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ہوتی ہیں، بعض اوقات زمین کی صورت میں بھی ریکوری ہوتی، اس کی ساری تفصیل پی اے سی کو الگ سے بھی دی جا سکتی ہے۔

رانا تنویر حسین نے کہا کہ سرکاری عہدہ رکھنے والوں سے لوٹی گئی یا کرپشن کی رقم کی مد میں نیب نے کتنی ریکوری کی ہے۔ نیب حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ ملک بھر میں اب تک 444 افسران سے پلی بارگین کی گئی۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ان میں سے 99 فیصد سے زائد لوگ اپنے عہدوں پر کام نہیں کر رہے ہیں، ہم نے ہر صوبے کے چیف سیکرٹریز کو احتساب عدالت کے احکامات کی تعمیل کیلئے خطوط لکھتے ہیں۔ نیب حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ پلی بارگین کے کیسز میں سے کوئی شخص اپنے عہدے پر کام کرتا ہوا نہیں ملے گا۔ نیب آرڈیننس کی شق 25

-A

کے تحت جو شخص رضاکارانہ طور پر کرپشن کی رقم واپس کر دے اس کو نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا تاہم بعض کیسز میں تنزلی سمیت کچھ سزائیں ہوئی ہیں، اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے، ہم ہائوسنگ سوسائٹیوں سمیت دیگر معاملات کے ایک لاکھ 77 ہزار سے زائد متاثرین کو 25 ارب روپے سے زائد کی رقوم واپس دلوائی ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے بعد ہم نے 5 ارب روپے کی ریکوری کا فیصلہ کیا جس میں سے 3 ارب سے زائد کی رقم جمع کرائی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح نیب پنڈی نے اڑھائی ارب کی ریکوری کرکے لوگوں کو رقم واپس ولوائی۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی ستائش ہونی چاہئے، مجھے ماضی سے کوئی غرض نہیں ہے، میں اکتوبر 2017 سے اب تک کا ذمہ دار ہوں۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ یہ واقعی نیکی کے کام ہیں، ہم اچھے کاموں کی ستائش کرتے ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ اس کا کوئی صلہ بھی ملنا چاہئے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ گندم، ادویات اور ایل این جی کے سکینڈلز آئے مگر نیب نے کچھ نہیں کیا، ہم چاہتے ہیں کہ بلاامتیاز اور شفاف احتساب ہونا چاہئے، ٹارگیٹڈ احتساب نہیں ہونا چاہئے۔

رانا تنویر حسین نے کہا کہ پی اے سی نے اب تک 3 سالوں میں 589 ارب کی ریکوریاں کی ہیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ ملک ریاض کی فیملی سے لندن میں 140 ملین پائونڈ کی رقم ریکور کی گئی، یہ رقم سپریم کورٹ کی زیرنگرانی چلنے والے اکائونٹ میں منتقل کر دی گئی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ رقم ایک طرح سے واپس ملک ریاض کو مل گئی ہے اور ان کو ہونے والے جرمانے میں ایڈجسٹ کر لی گئی ہے جبکہ نیشنل کرائم ایجنسی یو کے نے ملک ریاض اور ان کے خاندان کو یہ جرمانہ سزا کے طور پر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نیب سے کوئی گلہ نہیں مگر جرمانے کی اس رقم کا فائدہ ملک ریاض کو ہی پہنچا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ اس سلسلے میں مجھے ایک سے دو ہفتوں کا وقت دیں، میں ساری تفصیلات حاصل کرکے پی اے سی کو رپورٹ دے دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے بظاہر کوئی نہیں پوچھ سکتا، میں اس رقم کے بارے میں پوچھ کر بتا دوں گا۔

ایک سوال کے جواب میں چیئرمین نیب نے کہا کہ براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیں صورتحال واضح ہو جائے گی ، وہ جس نے معافی مانگی ہے اس کا براڈ شیٹ سے کوئی تعلق نہیں، میں سیاسی معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا، اس معاملہ پر بھی مزید تفصیلات حاصل کرکے پیش کر دیں گے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ہم 100 روپے کی کرپشن کرنے والے کو 50 روپے لے کر چھوڑ دیتے ہیں، اس معاملہ میں نیب کا کوئی اختیار نہیں ہے، یہ احتساب عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خامیوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے، نیب میں جو سقم ہیں وہ دور کئے جائیں گے مگر اس سلسلے میں پارلیمنٹ بھی اپنا کردار ادا کرے۔

ایک اور سوال کے جواب میں چیئرمین نیب نے کہا کہ بی آر ٹی پشاور اور مالم جبہ کیسوں میں عدالتوں نے حکم امتناعی جاری کر رکھے ہیں۔