نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے زیر اہتمام ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن اور سینٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم کے تعاون سے خواتین صحافیوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس

254

اسلام آباد۔29جولائی (اے پی پی):نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا ہے کہ پاکستان میں آن لائن اسپیسز میں سب سے بڑا چیلنج آن لائن تشدد اور ہراساں کرنا ہے جس کا ثبوت اس موضوع پر جامع تحقیق سے ملتا ہے کہ کس طرح اہم مسائل پر رپورٹنگ کرنے والی خواتین صحافیوں کو حملوں اور سنسرشپ کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کے زیر اہتمام ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن (ڈی آر ایف) اور سینٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم (سی ای جے) کے تعاون سے پاکستان بھر کی خواتین صحافیوں کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس سے اپنے کلیدی خطاب کے دوران کیا ۔

مشاورتی اجلاس کا مقصد خواتین صحافیوں کو اپنے تحفظات کا اظہار کرنے اور روزمرہ کی بنیاد پر درپیش چیلنجز سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے لئے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا نے کہا کہ پاکستان میں آن لائن اسپیسز میں سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے، جس کا ثبوت آن لائن تشدد اور ہراساں کرنے کے موضوع پر جامع تحقیق سے ملتا ہے کہ کس طرح اہم مسائل پر رپورٹنگ کرنے والی خواتین صحافیوں کو حملوں اور سنسرشپ کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈی آر ایف کی نمائندہ نگہت داد نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آن لائن جگہیں خواتین صحافیوں اور عام طور پر خواتین کے لیے تیزی سے مخالف ہوتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے قانونی پابندیوں، ماورائے عدالت زیادتیوں، آن لائن تشدد اور ہراساں کرنے، نگرانی اور خواتین صحافیوں کے خلاف صنفی غلط معلومات جیسے عوامل کی نشاندہی کی جن سے آن لائن اظہار رائے کی آزادی پر منفی اثر پڑا ہے۔

سی ای جے سے امبر رحیم شمسی نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو آن لائن بدسلوکی کے نتیجے میں ہراساں کیے جانے، جسمانی عدم تحفظ، صنفی اجرت کے فرق اور ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل19 آزادی اظہار رائے اور آرٹیکل 19(A) معلومات کے حق کے لیے آن لائن تقریر کے لیے تحفظ فراہم کرتی ہیں لیکن ان آزادیوں پر تیزی سے حملے ہوئے ہیں۔

اظہار رائے کی آزادی کی درجہ بندی کرنے والے اشاریوں میں پاکستان کی درجہ بندی مسلسل کم رہی ہے اور آن لائن جگہیں بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2021 کے مطابق پاکستان مسلسل ضابطوں اور میڈیا پر سنسر شپ کے ساتھ 180 میں سے 145 ویں نمبر پر ہے۔ غداری اور ہتک عزت جیسے قوانین، خاص طور پر مجرمانہ ہتک عزت، صحافیوں کے خلاف مقدمات کی پیروی کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ پیکا2016 خاص طور پر سیکشن 20، ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والے کارکنوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے۔

خاص طور پر خواتین کو ہراساں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تقریب کے اختتام پر چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے این سی ایچ آر میں ڈی آر ایف اور سی ای جے کے تعاون سے خاص طور پر خواتین صحافیوں کے لیے شکایت سیل کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ یہ شکایت سیل انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف ہو گا تاکہ آزادی صحافت کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت اور میڈیا کی آزادی کامیاب جمہوریت کی بنیاد ہیں۔