نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کاعالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ” زیرو ویسٹ کیمپس ” بننے کا عزم

147

اسلام آباد۔5جون (اے پی پی):نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز (نمز) نے ماحولیاتی انحطاط کا باعث بننے والی کسی بھی چیز کو استعمال نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے ” زیرو ویسٹ کیمپس ” بننے کا اہم قدم اٹھایا ہے ،اس سلسلے میں ویسٹ مینجمنٹ سے متعلق”فائیو آر” کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔یہ اقدام عالمی یوم ماحولیات سے ہم آہنگ ہے جو آج دنیا بھر میں منایا جارہاہے۔امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں کئی ممتاز جامعات پہلے ہی ” زیرو ویسٹ کیمپس ” بن چکی ہیں۔ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے ضمن میں فائیو آر حکمت عملی”کمی، دوبارہ استعمال، ری سائیکل، بوسیدگی اور شعور بیدار ی” کے بارے میں ہے۔

فیکلٹی آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹز کے ڈین پروفیسر اعظم چوہدری نے ہفتہ کو یہاں جاری بیان میں کہا کہ پاکستان”فائیو آر” کے حوالہ سے 2009 میں” تھری آر”( ریڈیوس،ری یوز اینڈ ری سائیکل) کمیونٹی کا پہلے ہی رکن بن چکا ہے جب خطے میں وسیع تر تعاون کے لیے جاپان کی تجویز پر ایشیا میں ریجنل تھری آر فورم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاہم ہمیں ادارہ جاتی اور انفرادی دونوں سطح پر ماحولیاتی انحطاط کا باعث بننے والے عوامل کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھاتے ہوئے بحیثیت معاشرہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

نمز کے وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سید محمد عمران مجید نے اپنے کلمات میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی بہت بڑا چیلنج ہے جو عالمی،علاقائی قومی، ادارہ جاتی اور انفرادی سطح پرغیر متزلزل عزم کا متقاضی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اپنی سماجی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے یونیورسٹی نے زیرو ویسٹ کی طرف پیش رفت کا عزم کیا ہے، سادہ عملی اقدامات اور انفرادی و ادارہ جاتی عوامل میں تبدیلیوں سے دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی عصر حاضر میں ایک نہایت کٹھن چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے اور پاکستان اس سے بریطرح متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ بہت زیادہ مقدار میں کوڑاکرکٹ کی پیداوار ہے جو مناسب طورپر ٹھکانے نہیں لگایا جاتا اور کھلی جگہوں پر پڑا رہتاہے۔نمز نے 9 جون کو شعور کی بیداری کے لئے ایک ویبینار کا بھی اہتمام کیا ہے جس میں ماحولیاتی ماہرین کو اس ضمن میں اپنے خیالات کے اظہار اور تجربات بیان کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔تعلیمی ادارے اس طرح طالب علموں اور مختلف طبقات کو متحرک کر کے معاشروں میں رویہ جاتی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اعظم چوہدری نے کہاکہ ادارے، خاندان اور افراد بال پوائنٹس یا پلاسٹک بیگ جیسی یک وقتی استعمال کی اشیا کو ترک کرنے کا عزم کر کے سر سبز ماحول کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھرمیں پیدا ہونے والے کوڑے کا صرف 15 فیصد ری سائیکل ہوتاہے جبکہ بقیہ یا تو سمندر میں جا گرتا ہے یا پھر مختلف مقامات پر ڈمپ کردیا جاتاہے جو ہمارے وسائل میں تخفیف کا باعث بنتا ہے۔