پشاور۔ 11 جولائی (اے پی پی):وادی کاغان کا سب سے زیادہ حسین اور دلفریب مقام ناران ہے ۔ مانسہرہ سے ناران کا فاصلہ 122کلو میٹر ہے ۔ کاغان سے ناران کی دوری صرف 23کلو میٹر ہے ۔ سطح سمندر سے 7904فٹ کی بلندی پر واقع ہے یہاں پر ناران سے 10کلومیٹر سطح سمندر سے 10500فٹ کی بلندی پر واقع گہرے نیلے سبز پانی سے مزین پیالہ نما جھیل ’’ سیف الملوک ‘‘ کا دلفریب نظارہ دلوں کو مول لیتی ہے ۔ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کے عشق کی داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی ایڈونچز بھرے جیپ کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد پہاڑوں میں گھری ہو ئی دیو مالا ئی اور طلسماتی جھیل کے نیلگوں پانی اور ارد گرد کے خوش کن مناظرنے اپنے سحر میں جھکڑ لیا ۔
ہمارا ملک ایسے جغرافیائی خدو خال کا حامل جو سیاحت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے پاکستان کے بلند ترین پہاڑوں کے درمیان پھیلی یہ خوبصورت وادیاں سیاحت کے دالدادہ لوگوں کے لیے اپنے دامن میں بہت کچھ چھپائے ہوئے ہیں ۔ ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش جیسے طلسمی ہائے کوہ ، سیاحوں ، کوئہ نووردوں اور پرانی تہذیب و ثقافت کے شوقین اور سیاحوں کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہاں فطری وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر کی کمی نہیں جن میں بلند و بالا برف پو ش پہاڑ اور ان پہاڑوں کے قدموں میں بچھی گلیشیائی جھیلیں ، گنگناتی آبشاریں ، گھنے جنگلات او ران کے درمیان نیلے پانیوں کی زمرد جھیلیں ، منہ زور دھارے اور موسیقی بکھیرتی ندیاں شامل ہیں ۔قدرتی نظاروں سے بھرپور ایشیا کی اس خوبصورت ترین جھیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ اس جھیل کا قطر تیزی سے کم ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس کے قدرتی حسن کو تو پہلے ہی خطرات لاحق تھے لیکن تیز بارشوں کے باعث اب اس کا وجود ہی خطرے میں پڑنے لگا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال تیز بارشوں کے نتیجے میں اطراف میں موجود بلند وبالا پہاڑوں سے آنے والے ملبے کی وجہ سے جھیل کا قطر تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ پہاڑوں سے مٹی اور پتھر جھیل میں گر رہے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر جھیل سیف الملوک کے اندر جانے والے پہاڑی ملبے کو نہ روکا گیا تو شدید بارشوں کے دوران جھیل کا پانی اوور فلو ہو کر ناران کے قصبے اور بازار کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔کاغان میں بڑھتی ہوئی بھیڑ بھاڑ اور آلودگی کی وجہ سے وہاں کی طلسماتی جھیلوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔
جھیل کے ساحل پر کچی آبادی کی طرز پر ایک پورا بازار وجود میں آ چکا ہے جس میں بغیر کسی روک ٹوک کے سیاحوں کو مہنگے داموں چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں گنجان آباد شہروں کے تنگ بازاروں سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو یہاں بھی راہِ فرار نہیں ملتی،سینکڑوں جیپوں کا اڈہ قائم ہے جس نے سڑک پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ناران سے جھیل تک کے9کلومیٹر کے جیب ڈرائیور 2 ہزار روپے لیتے ہیں۔ جھیل کے دہانے پر واقع پل کو پار کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہر طرف لوگ ایک دوسرے کی تصاویر اور اپنی سیلفیاں لیتے نظر آتے ہیں۔ناران سے 48 کلومیٹر دور واقع وادیِ کاغان کی سب سے بڑی جھیل لولوسر کا بھی تقریباً یہی حال ہے ۔
لولوسر کے ساحل پر پکوڑوں اور سموسوں کی عارضی دکانیں اس جھیل کے قدرتی حسن پر بدنما داغ بن گئی ہیں۔ اس بارے میں وزیراعلی کے مشیر برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ زاہد چن زیب کا کہنا ہے کہ وادیِ ناران بالخصوص دیو مالائی قصوں کا حامل جھیل سیف الملوک پاکستان کا اہم ترین سیاحتی مرکز ہے جس کی بین الاقوامی اہمیت مسلمہ ہے۔ عید الاضحی ٰپر4 لاکھ سے زیادہ سیاحوں کا انتظام اور وادی کے بیشتر علاقوں کی صفائی یقینی بنانا کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قابل تحسین کارنامہ ہے۔ اتھارٹی نے وادی ناران کے تمام سیاحتی مقامات کو صاف ستھرا رکھ کر سیاحوں کو بہترین سہولیات فراہم کیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے سیاحوں کی سہولت کیلئے تعمیر کردہ گرین بیلٹ کی افتتاحی تقریب اور مقامی ہوٹل ایسوسی ایشن کے عہدیداران و عمائدین علاقہ سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ناران میں پینے کے صاف پانی کی مشکلات کے ازالے کیلئے دو سولر ٹیوب ویل کی تنصیب کا اعلان بھی کیا۔
تقریب میں ایم پی اے منیر حسین لغمانی ایڈوکیٹ،ڈائریکٹر جنرل کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی شبیر خان، ڈپٹی ڈائریکٹر امین الحسن، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز نعمان خان، ظہورِ خان، اسد خان، ہوٹل ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سیٹھ مطیع اللہ، سرور خان، محمد فاروق، یاسر ہارون، اشفاق احمد، حسن دین، انور لالہ اور عمائدین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مشیر سیاحت کا کہنا تھا کہ کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی بورڈ کو مزید فعال بنایا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ نقشہ منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہو گی اور تجاوزات کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ ہوٹل مالکان کے بعض مسائل و مطالبات پر زاہد چن زیب نے یقین دلایا کہ کے ڈی اے بورڈ کے قوانین میں ماحول اور عوام دوست آئینی ترامیم لاکر ہوٹل مالکان کو بھی سہولیات اور مراعات فراہم کی جائیں گی۔
زاہد چن زیب نے سیاحوں کی سہولت کیلئے ناران میں ایمبولینس فراہمی، سہوچ پل کی مرمت کیلئے 30 لاکھ فنڈ کی منظوری اور گرلز سکول ناران کیلئے کرایہ کی بلڈنگ فراہمی یا متبادل سکول میں عمارت منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ممبر صوبائی اسمبلی منیر حسین لغمانی ایڈوکیٹ نے مشیر سیاحت کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ بہتر انتظامات کی بدولت رواں سیزن میں سیاحوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا مقصد ٹورازم انڈسٹری کا فروغ اور ان سیاحتی مقامات کی ترقی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وادی کاغان میں 9 ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے مگر رواں سیزن میں 15 ہزار گاڑیاں داخل ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بعض مقامات پر ٹریفک مشکلات پیدا ہونا فطری امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے کا عملہ دیگر اداروں کی معاونت سے ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھتا ہے جبکہ وہ سیاحوں کی خدمت کیلئے شبانہ روز کوشاں ہے نیز انکی مشکلات کو فورا حل کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر مشیر سیاحت نے ناران میں بعض مقامی مسائل کے حل کیلئے موقع پر احکامات جاری کئے۔ قبل ازیں انہوں نے کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام گرین بیلٹ کا افتتاح کیا جہاں سیاح دریائے کنہار کے کنارے خوشگوار موسم میں ٹھنڈی ہواؤں اور کھلی فضاؤں میں بیٹھ کر وادی ناران کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ٹورازم اینڈ کلچر اتھارٹی کے جنرل منیجر محمد علی سید نے کہا کہ لامچر، سجاکوٹ، نوری، چجیاں ہری پور، جاروگو سوات، لانچھ دیر اور امبریلا ایبٹ آباد کے آبشاروں کو ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
ایبٹ آباد، ہری پور اور مانسہرہ کے آبشاروں کو جوڑنے کے لیے سیاحتی مقامات، جیپ ٹریک اور سڑکیں تیار کی جا رہی ہیں,گلیات، کاغان، ناران، کالام، مالم جبہ اور دیر میں سیاحوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے 500 ملین روپے کی تخمینہ لاگت سے 15 علاقوں میں جیپ ایبل ٹریکس بنائے جا رہے ہیں، اس کے قریب کیمپنگ پوڈز بھی قائم کیے گئے ہیں ,اسی طرح پی ٹی ڈی سی کے 19 سے زائد ہوٹل/ موٹل جن میں گھرام چشمہ، پیر مفلشٹ، بونی، چترال میں کالاش، اوشو کالام، مانکیال، سیدو شریف، سوات میں میاندم، بالاکوٹ مانسہرہ، ایوبیہ ایبٹ آباد کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔کے پی ٹورازم اتھارٹی کے جی ایم انویسٹمنٹ عمیر خٹک نے کہا کہ گھنول مانسہرہ، مانکیال سوات، مدقلش چترال اور ٹھنڈیانی ایبٹ آباد میں انٹیگریٹڈ ٹورازم زونز ورلڈ بینک کے تعاون سے بنائے جائیں گے جبکہ گھنول مانسہرہ 59.6 ایکڑ، مانکیال سوات 29.5 ایکڑ، مدقلش 540 کنال اور ٹھنڈیانی بالترتیب 640 کنال اراضی پر قائم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر، پائیدار سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سب سے پہلے 5.5 بلین روپے کی مجوزہ لاگت کے ساتھ انٹیگریٹڈ ٹورازم زونز گھنول اور 2.9 بلین روپے کی تخمینہ لاگت سے مانکیال کو تیار کیا جائے گا۔ مانکیال اور گھنول آئی ٹی زیڈز کے لیے قواعد و ضوابط تیار کیے گئے جو ملائیشیا اور انڈونیشیا کے آئی ٹی زیڈز کی طرز پر مکمل کیے جائیں گے۔ ان انٹیگریٹڈ ٹورازم زونز ITZs سے 200,000 براہ راست اور بالواسطہ ملازمت کے مواقع اور 2.8 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع ہے۔دیر اپر سے مدکلشت چترال تک کیبل کار منصوبے کی فزیبلٹی مکمل کر لی گئی ہے اور اس کی مالی معاونت عالمی بینک خیبرپختونخوا انٹیگریٹڈ ٹورازم پراجیکٹ (کائیٹ ) کے ذریعے کرے گی۔
حکومت کے ان مثبت اقدامات سے سیاحت کی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاحت سے محبت کرنے والے ملک کے سافٹ امیج کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ ماہرین نے سوشل میڈیا پر مختصر ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے ان خزانوں کی نمائش کی ضرورت پر زور دیا تاکہ غیر ملکی سیاحوں کو راغب کیا جاسکے جو دیہی معیشت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=483854