اسلام آباد۔3جون (اے پی پی): وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ کورونا کی وبا سے مختلف شعبوں میں پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں اور معاشرہ کے انتہائی کمزور طبقات کو تحفظ فراہم ہو سکے۔ اس حوالے سے ترقی پذیر ممالک میں تخفیف غربت کے لیے مالی وسائل کو متحرک کرنا ناگزیر ہے، بحالی کی کوششوں کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تکنیکی اور ڈیجیٹل فرق کو بھی دور کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جی 77 اور چین کی جانب سے اسٹاک ہوم+50 میٹنگز میں دوسرے لیڈر شپ ڈائیلاگ سےخطاب کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر نے اپنے خطاب میں تقریب کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ وبائی مرض کوویڈ 19 سے غربت میں اضافہ ہوا اور اس کے خاتمہ کے لیے فعال اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔تقریب کے شرکاء اور منتظمین سے مخاطب ہوتے ہوئے وفاقی وزیر نے پائیدار اور جامع حکمت عملی کے حصول کے لیے ترجیحی اقدامات کے لیے تجاویز پیش کیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے ہمیں کوویڈ سے متاثرہ کلیدی شعبوں، جیسے خوراک، توانائی، سیاحت اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے ترقی پزیر ممالک میں تخفیف غربت کے لیے مالی وسائل کو متحرک کرنا ناگزیر ہے جس کے لیے چار سے پانچ ٹریلین امریکی ڈالر کی اضافی مالی اعانت کے لیے دستیاب وسائل کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ اس میں ترقیاتی امداد، قرض سے نجات اور کثیر جہتی مالیاتی سہولت کو بڑھانا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں کی آلودگی کو بھی روکنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ پانی کے استعمال میں کمی لانے کی بھی کوشش کرنا ہو گی۔
تکنیکی مہارت کی منتقلی اہداف کے حصول میں مدد کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں زرعی سبسڈیز اور پائیدار خوراک کے نظام پر تحفظ پسند پالیسیوں کو اپنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ بحالی کی کوششوں کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان پھیلتے ہوئے تکنیکی اور ڈیجیٹل فرق کو بھی دور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں SDGs اور UNFCCC اور اس کے پیرس معاہدے کے ساتھ کاروباری طریقوں کی صف بندی کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہمیں ترقی پذیر ممالک کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے اور عالمی سپلائی چینز میں ان کی شمولیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر شیری رحمان نے ایک اور تقریب سے بھی خطاب کیا اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بائیو ڈائیورسٹی اہداف میں سے کوئی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں کیا گیا جس سے ایس ڈی جیز کے حصول کو خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں جنگلات کی کٹائی، زمینی انحطاط اور آلودگی کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اپنے قدرتی ماحولیاتی نظام کے ساتھ توازن بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جدید کاروباری ماڈلز اور ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا جا سکے جو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار ترقی کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں 2020 کے بعد کے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے جو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ، اس کے پائیدار استعمال اور جینیاتی وسائل کے استعمال سے حاصل ہونے والے فوائد کے منصفانہ اشتراک کو فروغ دہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کے لیے مالیات، صلاحیت کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں خاطر خواہ اضافہ شامل ہو۔
وفاقی وزیر نے فطرت کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر بنانے کے لیے اپنے وژن، قیادت اور عزم کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ، بحالی اور پائیدار طریقہ کار کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے عزم کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ اقدامات میں پیش رفت کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے 2030 تک قدرتی ماحول کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہو گا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=310415