اسلام آباد۔18فروری (اے پی پی):وزارت توانائی نے توانائی کے شعبہ کی صورتحال اور سابق حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پڑنے والے منفی اثرات اور موجودہ حکومت کی طرف سے توانائی کے شعبہ میں اصلاحات متعارف کرانے ، صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی ، واجبا ت کی وصولی، لاسز میں کمی اور سستی ایل این جی کی دستیابی کے حوالہ سے حقائق نامہ جاری کر دیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی طرف سے توانائی کے شعبہ سے متعلق حقائق کے برعکس دعوئوں کے ردعمل میں جمعرات کو وزارت توانائی (پاور ڈویژن)سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کی بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے ’’ٹیک اور پے ‘‘ کی بنیاد پر کئے جانے والے مہنگے معاہدے ہیں جن سے یہ شعبہ شدید متاثر ہوا ہے، سابق حکومت نے اپنے آخری سال میں بجلی کے ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا اور یہ بوجھ موجودہ حکومت کیلئے چھوڑ گئی، کووڈ۔19 کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت نے صارفین کو بوجھ سے بچانے کیلئے 2020 میں بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کی اجازت نہیں دی اور اس کی وجہ سے گردشی قرضہ میں ناگزیر اضافہ ہوا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی قیمت میں ایک روپے 95 پیسے کا جو اضافہ کیا گیا ہے وہ اب بھی سابق حکومت کی طرف سے کی جانے والی غلط منصوبہ بندی کے تحت اصل قیمت سے بہت زیادہ کم ہے ۔ 2013 میں سالانہ لازمی کیپسٹی چارجز 185 ارب روپے (2.1 روپے فی یونٹ)تھے جو 2018 میں بڑھ کر 468 ارب روپے (3.98 روپے فی یونٹ)ہو گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ورثہ میں ملنے والے مہنگے معاہدوں کی وجہ سے 2020 میں یہ کیپسٹی چارجز 860 ارب روپے تک پہنچ گئے اور 2023 میں یہ 1455 ارب روپے (10.82 روپے فی یونٹ) تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔ بجلی کی طلب میں سالانہ سات فیصد اضافہ کے تناظر میں 2023 میں تقریباً 40 فیصد زیادہ سپلائی کی صورتحال ہو گی اور معیشت کو ضرورت سے قطع نظر ادائیگی کرنا پڑے گی۔ بیان میں کہا گیاہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سابق حکومت نے جو مہنگے معاہدے کئے ہیں وہ اوسطاً علاقائی بنچ مارک کے مقابلہ میں 25 سے 35 فیصد مہنگے ہیں۔ ساہیوال میں کوئلہ سے چلنے والے ایک پلانٹ سمیت درآمدی کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھروں کو سرمائے پر 30 سے 35 فیصد سالانہ منافع کی جو ضمانت دی گئی ہے وہ پالیسی کے لحاظ سے تباہ کن ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ونڈ اور سولر توانائی کے 20 سے 25 روپے فی یونٹ ٹیرف نے بجلی کے شعبہ کو جکڑا ہوا ہے جبکہ اس کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں گذشتہ سال 6 روپے فی یونٹ سولر آئی پی پی ٹیرف دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ایک تباہ شدہ معیشت ورثہ میں ملی ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقہ سے مستحکم رکھا جس کی وجہ سے حکومت کو غیر پائیدار کرنٹ اکائونٹ خسارہ کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے ساتھ ساتھ افراط زر کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود میں اضافہ ہوا۔ آئی پی پی کے 60 سے 80 فیصد ٹیرف ڈالر سے منسلک ہونے اور تقریباً 45 فیصد بجلی درآمدی ایندھن سے پیدا ہونے کی وجہ سے بجلی کے صارفین کو ماضی کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں اضافہ سہنا پڑا ہے۔
دوسری طرف موجودہ حکومت نے تقریباً 50 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کئے ہیں جس کے نتیجہ میں اگلے 20 سال کے دوران 770 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے سرمائے پر منافع میں کمی کرکے اسے 12 سے 13 فیصد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فیول ایفیشنسی آپریشنز اور مرمت کی لاگت کی مد میں بھی بچت پر اتفاق کیا گیا ہے۔ 96 ارب روپے کی انٹرسٹ آن انٹرسٹ انوائسز ختم کر دی گئی ہیں جبکہ سابق دور سے ریاست کے خلاف بین الاقوامی ثالثی ایوارڈز کے معاملہ پر بھی 38 ارب روپے بچائے گئے ہیں۔ آئندہ سالوں میں صارفین کو بجلی کی قیمت میں ریلیف فراہم کرنے کیلئے مختلف سرکاری پاور پلانٹس (تقریباً 14 ہزار میگاواٹ)سے بھی 2 ہزار ارب روپے کی بڑی کمی کی گئی ہے اور موجودہ آئی پی پی قرضہ کی تنظم نو کرنے اور صارفین کو بچت کا فائدہ پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کیپٹو پاور یونٹس کو گیس کی فراہمی روکنے ، صنعتی صارفین کیلئے بجلی کے نرخ کم کرنے اور ان کیلئے پیک اور آف پیک قیمت میں فرق ختم کرنے سمیت ٹھوس اور مثالی فیصلے کئے ہیں۔
برآمدات بڑھانے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت متعلقہ صنعتوں کو سستی بجلی اور گیس فراہم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 فیصد پرانے اور غیر فعال سرکاری پاور پلانٹس کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ باقی 18 سے 12 مہینے کے اندر بند کر دیئے جائیں گے۔ کثیر الخرید اور کثیر الفروخت ماڈل کے تحت پاور کمیوڈیٹی مارکیٹ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک آزادانہ وہیلنگ نظام کا قیام زور و شور سے جاری ہے جس سے نہ صرف بجلی کے صارفین کو بجلی کی فراہمی کیلئے مزید راستہ مل سکے گا اوربجلی کی قیمت میں کمی کے ساتھ ساتھ صارفین کیلئے بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ اب تک 10 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں اور این ٹی ڈی سی میں سے 6 کے بورڈز میں پیشہ وارانہ مہارت کے حامل اور غیر جانبدار افراد کو شامل کیا گیا ہے جبکہ نئے سی ای اوز کے انتخاب کا عمل اگلے چند ہفتوں میں کھلے اور شفاف مسابقتی عمل کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔
ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا انتظا می کنٹرول نجی شعبہ کے آپریٹرز کو بھی دیئے جانے پر غور ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے آپریشنز میں متعلقہ صوبوں کا حصہ بڑھانے کا بھی پروگرام ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر سابق حکومتیں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کرنا چاہتیں تو کر سکتی تھیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت اب وہ بڑے پیمانے پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات کر رہی ہے جو سابق حکومتیں کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بجلی کے حالیہ بلیک آئوٹ کے معاملہ پر آزادانہ رپورٹ جاری کی جائے گی اور اس سلسلہ میں کچھ انتظامی اقدامات پہلے ہی کئے جا چکے ہیں۔ 2018 میں بھی سابق حکومت کے دور میں اسی طرح کا ملک میں بریک ڈائون ہوا تھا، سابق حکومت نے ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن نیٹ ورک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے 2018 سے 2020 کے دوران 39 ارب روپے اس شعبہ میں خرچ کئے ہیں جن کے نتیجہ میں اضافی 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل ممکن ہوئی ہے۔ اسی طرح سابق حکومت نے بجلی کی تقسیم کے نظام میں بھی کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت نے پہلی مرتبہ 2019 میں بجلی کی تقسیم کے نظام میں 74 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جو کہ نیپرا کے ہدف سے بھی زیادہ ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن کے تقریباً 85 فیصد نقصانات چار ڈسٹری بیوشن کمپنیوں حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور پشاور/قبائلی علاقوں کے ہوتے ہیں اور سابق حکومتوں نے اس چیز کو نظر انداز کئے رکھا، موجودہ حکومت محدود وسائل کے باوجود ان کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور مجموعی ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن لاسز (17.8 فیصد)اور واجبات کی وصولی (90 فیصد)ہے تاہم گذشتہ سال کورونا وبا ، صنعتوں کی بندش اور صارفین کو بلوں میں ریلیف دیئے جانے کی وجہ سے کارکردگی پر بھی اثر پڑا ہے۔
ایل این جی کے شعبہ میں حقیقت یہ ہے کہ دسمبر،جنوری اور فروری کیلئے ایل این جی کی ڈی ای ایس پرائس بالترتیب6.32 ڈالر، 6.46 اور 7.31 ڈالر رہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری موسم سرما کے ان مہینوں میں یہ قیمت بالترتیب 7.50 ڈالر، 8.49 ڈالر اور 8.65 ڈالر تھی۔ سابق حکومت نے تمام تکنیکی ایڈوائس کو نظر انداز کیا اور ایل این جی سے چلنے والے تین سرکاری پاور پلانٹس کو 500 کے وی کے گرڈ سے منسلک کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2017 اور دسمبر 2018 میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو چلایا جبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بقول وافر ایل این جی دستیاب تھی۔
سابق حکومت نے 2017 میں فرنس آئل سے 27 فیصد بجلی پیدا کی جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں 2020 میں فرنس آئل سے صرف 4.6 فیصد بجلی پیدا کی گئی ہے۔ دسمبر 2020 میں بجلی کے شعبہ کیلئے 340 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دستیاب تھی جبکہ جنوری 2021میں گھریلو صارفین کی طلب پوری کرنے کے باوجود 200 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دستیاب تھی اور اس سلسلہ میں سستے دستیاب وسائل کی بنیاد پر میرٹ آرڈر پر عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا ہے۔