اسلام آباد۔9فروری (اے پی پی):وزارت خزانہ نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک مشن کی گورننس اور کرپشن کے جائزہ کے لیے پاکستان آمد کے حوالے سے میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے آئی ایم ایف ایک طویل عرصے سے پاکستان کو رہنمائی اور تکنیکی معاونت فراہم کرتا رہا ہے جس سے اچھی حکمرانی کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے، پائیدار اور شمولیتی ترقی کے لیے اچھی حکمرانی کا فروغ، قانون کی حکمرانی ، سرکاری شعبے کی کارکردگی ، احتساب کو بہتر بنانا اور بدعنوانی سے نمٹنا حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ اتوار کو جاری وضاحتی بیان میں ترجمان نے کہا کہ آئی ایم ایف کی رہنمائی اور تکنیکی معاونت کا مقصد سرکاری شعبے میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینا ہے، روایتی طور پر آئی ایم ایف کی بنیادی توجہ ممالک کی حوصلہ افزائی کرنے پر رہی ہے کہ وہ میکرو اکنامک عدم توازن کو درست کریں
افراط زر کو کم کریں ، کارکردگی کو بہتر بنانے اور پائیدار اقتصادی ترقی کی حمایت کرنے کے لئے ضروری اہم تجارت، تبادلے اور دیگر مارکیٹ اصلاحات کریں۔ اگرچہ اس کے تمام رکن ممالک میں ان پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگر ممالک کو نجی شعبے کا اعتماد قائم کرنا اور برقرار رکھنا ہے اور اس طرح پائیدار ترقی کی بنیاد رکھنا ہے تو ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے نشاندہی کی کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے، سرکاری شعبے کی کارکردگی اور احتساب کو بہتر بنانے اور بدعنوانی سے نمٹنے سمیت اس کے تمام پہلوؤں میں گڈ گورننس کو فروغ دینا اس فریم ورک کے لازمی عناصر ہیں جس سے معیشتیں خوشحال ہوسکتی ہیں۔آئی ایم ایف کی رہنمائی اور تکنیکی امداد سے بہتر طرز حکمرانی اور پبلک سیکٹر کی شفافیت اور احتساب کے فروغ میں مدد ملی ہے۔
1997 ء میں آئی ایم ایف نے معاشی گورننس سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی اپنائی، جسے گائیڈنس نوٹ’’گورننس ایشوز میں آئی ایم ایف کا کردار‘‘ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے نفاذ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آئی ایم ایف نے 2018 میں گورننس (گورننس پالیسی) پر انفائنڈ انگیجمنٹ کے لیے ایک نیا فریم ورک اپنایا جس کا مقصد رکن ممالک کے ساتھ گورننس میں پائی جانے والی خامیوں بشمول بدعنوانی کے حوالے سے زیادہ منظم، موثر، واضح اور مساوی روابط کو فروغ دینا ہے جو میکرو اکنامک کارکردگی کے لیے اہم ہیں۔تاریخی طور پر آئی ایم ایف نے میکرو اکنامک عدم توازن کو درست کرنے اور افراط زر پر قابو پانے میں ملکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔اس پالیسی اور فریم ورک کے تحت آئی ایم ایف رکن ممالک کے ساتھ گورننس اینڈ کرپشن ڈائگناسٹک اسسمنٹ (جی سی ڈی اے) کرنے کی پیشکش کرتا ہے
تاکہ آئی ایم ایف کے رکن ممالک میں بدعنوانی سے نمٹنے اور گورننس کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کا تجزیہ اور سفارش کی جاسکے۔تجزیے کے بعد جی سی ڈی اے کمزوریوں کو منظم طریقے سے حل کرنے کے لئے سفارشات ترتیب دیتے ہیں۔ 2018 کے بعد سے جی سی ڈی اے کی بیس رپورٹس کو حتمی شکل دی گئی اور ان میں سری لنکا، موریطانیہ ، کیمرون، زیمبیا اور بینن شامل ہیں۔ دس تشخیص جاری کی ہیں اور کئی آئی ایم ایف کے زیر غور ہیں۔ لہٰذا اسی طرح ای ایف ایف 2024 پروگرام کے تحت ایک ساختی معیار موجود ہے کہ آئی ایم ایف کی صلاحیت کی ترقی کی مدد کے ساتھ حکومت پاکستان گورننس میں خامیوں اور بدعنوانی کا تجزیہ کرنے اور آگے بڑھنے والی ترجیحی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی نشاندہی کرنے کے لئے جی سی ڈی تشخیص کرے گی ، جس کے تحت حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹرکچرل بنچ مارک تشکیل دیا ہے ۔
جی سی ڈی اے کی یہ رپورٹ شائع کی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے 2018 میں اس پالیسی اور فریم ورک کے تحت ’’ گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ‘‘ (جی سی ڈی اے) کے نام سے ایک نیا فریم ورک اپنایا ہے۔ اس بنچ مارک کا مقصد اصلاحاتی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کی تکنیکی امداد کا حصول ہے۔اس عزم کے تحت آئی ایم ایف کا تین رکنی اسکوپنگ مشن جی سی ڈی اسسمنٹ کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ مشن کی توجہ چھ بنیادی ریاستی افعال میں بدعنوانی کی کمزوریوں کاجائزہ لینے پر ہوگی۔ ان میں مالیاتی گورننس، مرکزی بینک کی گورننس اور آپریشنز، مالیاتی شعبے کی نگرانی، مارکیٹ ریگولیشن، قانون کی حکمرانی اور اے ایم ایل۔سی ایف ٹی شامل ہیں۔ یہ مشن بنیادی طور پر فنانس ڈویژن، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، آڈیٹر جنرل آف پاکستان
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارت قانون و انصاف جیسے اداروں کے ساتھ کام کرے گا۔جی سی ڈی اے کی رپورٹ میں بدعنوانی سے نمٹنے اور گورننس کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کی سفارش کی جائے گی، جس سے شفافیت کو فروغ دینے، ادارہ جاتی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے ، جامع اور پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے اصلاحات لانے میں حکومت کو مدد ملے گی۔ حکومت پاکستان اس حوالے سے آئی ایم ایف کی فراہم کردہ سپورٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔