اسلام آباد۔13فروری (اے پی پی):پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے ساتھ تعاون کریں گے تاہم وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی(سی ای سی)کے دو روز جاری رہنے والے اجلاس کےاختتام پر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ سی ای سی کے اجلاس میں ملکی استحکام کے حوالے سے موجودہ سیاسی صورتحال پر ہر لحاظ سے تبادلہ خیال کیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی کا اصولی موقف یہ ہے کہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکلنے میں مدد کی ضرورت ہے، پارٹی کے لیے ایک بار پھر وقت آ گیا ہے کہ وہ ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کرے۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکال سکیں، پیپلز پارٹی چاہے گی کہ وہ صدر مملکت کا عہدہ سنبھالیں، سینٹ اور قومی اسمبلی میں جو آئینی عہدے ہیں ان پر پیپلز پارٹی کو اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا حق حاصل ہے، ہم ان آئینی عہدوں پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی کے پاس وفاقی حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں ہے اور اسی وجہ سے میں وزیراعظم کے امیدوار کے لیے خود کو آگے نہیں کروں گا، اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں واحد سیاسی جماعت ہے جس نے پی پی پی سے رابطہ کیا اور ہمیں اپنی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی، پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم خود وفاقی حکومت میں شامل ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے سیٹ اپ میں وزارتیں لینے میں دلچسپی لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی پی پی نے یہ انتخاب ایک منشور پر لڑا جو عوامی اہمیت کے مسائل بشمول عوامی تحریک اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے پاکستانی عوام کے ساتھ ہمارے عزم کے گرد گھومتا تھا، اس مقصد کے لیے پی پی پی ایشو ٹو ایشو کی بنیاد پر اور پاکستان کے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ووٹوں کی اہمیت کی صورت میں حمایت کرنے کے لیے آمادہ ہو سکتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حکومت قائم ہو اور سیاسی استحکام بحال ہو، اسی تناظر میں پی پی پی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کے لیے پارٹی کے ارکان کی ایک کمیٹی بنائیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ساتھ چلنے کیلئےاعتماد سازی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم دیگر جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں میں نہ صرف حکومت سازی پر بات کریں گے بلکہ ان سے پی پی پی کے خدشات دور کرنے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عوام اور ملک کے وسیع تر مفاد میں نتائج کو قبول کریں گے، ہم بیک وقت ان مسائل کو حل کرنا چاہیں گے تاکہ آئندہ انتخابات پر سوالیہ نشان نہ لگے۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ وہ پاکستانی عوام کو امید اور پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور حکومت بنے گی، یہ وہ فورم ہے جہاں عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں، پی پی پی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اپنے مفاد کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے حکومت قائم ہو ۔
چیئرمین بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ ملک کے عوام کی مدد کرنا اور عدم استحکام سے بچنا ہماری ذمہ داری ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا ہے۔چیئرمین بلاول کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی، یہ حکومت کو ایشو ٹو ایشو کی بنیاد پر، اس کے منشور اور اہم ووٹوں کی حمایت کرے گی، ہم نے اپنی شرائط و ضوابط سے آگاہ کرنے کے لیے ایک ڈائیلاگ کمیٹی بنائی ہے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پارٹی سندھ اور بلوچستان میں حکومت بنانے کی کوشش کرے گی، پیپلز پارٹی کو سینیٹ اور قومی اسمبلی سمیت ملک کے تمام آئینی عہدوں پر فائز ہونے کا حق حاصل ہے، جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی قومی اسمبلی میں 17 نشستیں تھیں، تب بھی پارٹی نے اپنے امیدواروں کو آئینی عہدوں کے لیے نامزد کیا، پیپلز پارٹی ان عہدوں پر اپنے امیدوار ضرور نامزد کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کا اختیار ہے کہ وہ اپنے وزیر اعظم کے امیدواروں کو نامزد کریں، پارٹی ان عہدوں کے لیے اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرے گی۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ میری ذاتی خواہش ہے کہ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی جانب سے صدر کے عہدے کے امیدوار ہوں ۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا موقف ہمیشہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی مدت پوری کرنے کی حمایت میں رہا ہے، صرف ن لیگ ہی نہیں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے لیے نہیں ملک کا سوچنا چاہیے، ملک دشمن موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے، ہمیں آئین کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی پالیسی میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ دونوں خیالات کا احترام کیا جائے، اگر پارلیمنٹ کے فیصلے اتفاق رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں تو امید ہے کہ عوام کو فائدہ ہوگا، اگر ہم نے عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہ دی تو اس سے پوری قوم کو نقصان ہوگا۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر پی ٹی آئی اور ن لیگ کو بلیک میل کر سکتی تھی، یہ مفاہمت کی سیاست نہیں بلکہ پاکستانی عوام سے ہماری محبت ہے جو ہمیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر رہی ہے، ہمیں اپنی سیاست اور ملک کے نظام کو چلانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے جس کے لیے پیپلز پارٹی کے قائدین اور جیالوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے عوام مجھ سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ میں صرف اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے کوئی انتہائی موقف اختیار کروں۔