اسلام آباد۔6مارچ (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اسد عمر نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے اسی لئے گریڈ 1 سے گریڈ 19 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، سینیٹ انتخابات میں پیسے دینے والے کھل کر سامنے آ گئے ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان کے خلاف فوری طور پر کارروائی کرنی چاہیے۔
ہفتہ کو پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی امیدوار فوزیہ ارشد کو مجموعی طور پر 176 ووٹ پڑے ہیں جس سے تحریک انصاف کی اکثریت واضح ہو گئی تھی، اکثریت کا کوئی سوال نہیں تھا، صرف ایک سیٹ پر پیسہ چلا اور لوگوں نے رات کی تاریکی کے اندر پیسے لیکر ووٹ ڈالا، ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ اپوزیشن اس بیانیے کو آگے چلانے کی کوشش کرے گی کہ ان کے پاس تو اکثریت ہی نہیں اور ملک میں فضول بحث شروع ہو جائے گی۔
اس لئے وزیراعظم عمران خان نے وقت ضائع کئے بغیر اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ اسد عمر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ملک میں احتساب کے موجودہ نظام سے مایوس ہیں اور انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس میں اپنے خطاب میں بھی اس کا اظہار کیا ہے، نیب جب بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم تحریک انصاف کے دور حکومت میں بدعنوان عناصر کے خلاف بلاتفریق احتساب کا عمل جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں بکنے والے ارکان جرم کے مرتکب ٹھہرے ہیں، ہماری پوری کوشش ہو گی کہ انہیں سامنے لایا جائے، وزیراعظم عمران خان نے ماضی میں بھی اپنے 17ایم پی ایز کے خلاف ایکشن لیا تھا اور وہ آئندہ بھی پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئینی ادارہ ہے اور اس کا واضح کردار ہے، آئین کے اندر اس کے اختیارات موجود ہیں، سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے احکامات دیئے تھے لیکن وہ شفاف انتخابات کا انعقاد کرانے میں ناکام رہا جو ایک حقیقت ہے اور یہ میرا آئینی حق ہے کہ اس کی نشاندہی کروں۔
ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن جانتی تھی کہ انہیں شکست ہوگی اور وزیراعظم عمران خان اعتماد کے ووٹ میں سرخرو ہو جائیں گے، اپوزیشن کے بائیکاٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑا، اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اپنے قائدین کے قومی اداروں کے خلاف بیانیے سے خوش نہیں ہیں، اپوزیشن کو ڈر تھا کہ اگر اسمبلی گئے تو کہیں وہ ارکان بھی اٹھ کر وزیراعظم کو ووٹ نہ دے دیں۔