
اسلام آباد۔12اپریل (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وبا اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے، کورونا وبا کی عالمی سطح پر روک تھام کیلئے ویکسی نیشن کے عمل میں ترقی پذیر ملکوں کی مدد کی جائے، پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کیلئے 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا ہے، ہمیں کورونا وبا کی تیسری لہر کا سامنا ہے، اس لہر کو بھی شکست دیں گے، عالمی برادری کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ ویکسین ہر جگہ، ہر کسی کیلئے اور جلد سے جلد دستیاب ہو، ٹیکنالوجی کی منتقلی کے راستے میں رکاوٹیں دور کی جانی چاہئیں، ترقی یافتہ ممالک پیرس معاہدہ کے تحت اپنے وعدے پورے کریں، ترقی پذیر ممالک سے چوری شدہ اثاثے فوری اور غیر مشروط طور پر واپس ہونے چاہئیں، ہمیں مل کر غیر مشروط طور پر ایک نئے، پرامن، مساوی اور پائیدار عالمی نظام کیلئے تعاون کرنا چاہئے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل فورم برائے ترقی کیلئے مالی معاونت کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس فورم کا اجلاس رواں سال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دنیا کو کورونا وائرس اور بڑے پیمانے پر اس کے سماجی و اقتصادی اثرات کا سامنا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی کے ذریعے کورونا وائرس کی پہلی دو لہروں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو کنٹرول کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے معاشرے کے غریب اور کمزور ترین افراد کی مدد اور اپنی معیشت کو بحال رکھنے کیلئے 8 ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا، اب بدقسمتی سے ہمیں کورونا وائرس کی تیسری لہر کا سامنا ہے، انشاء اﷲ ہم اس لہر کو بھی شکست دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ ویکسین ہر جگہ، ہر کسی کیلئے اور جلد سے جلد دستیاب ہو، اگر ایسا نہ ہوا تو وائرس پھیلے گا، ویکسین کی تیاری کا عمل بھی تیز کیا جانا چاہئے اور اس مقصد کیلئے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے راستے میں حائل رکاوٹین ختم کی جانی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ”ویکسین نیشنلزم” اور اس کی برآمد کے راستے میں رکاوٹیں قابل افسوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورم کووڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کے مسئلہ سے نمٹنے اور ترقی پذیر ممالک کو بحالی کیلئے درکار رقم کی فراہمی اور 2030ء تک پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے راستے پر چلنے کیلئے فیصلے کرنے کا اہم موقع فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ اپریل میں، میں نے قرضوں میں ریلیف سے متعلق عالمی اقدام کی تجویز پیش کی تھی اور یہ بات باعث مسرت ہے کہ جی۔20 کے قرضے معطل کرنے کی مدت بڑھا دی گئی ہے اور اس کا دائرہ کار تمام غریب ممالک بالخصوص چھوٹے ترقی پذیر ممالک تک بڑھانے کی ضرورت ہے، نجی طور پر قرضے فراہم کرنے والوں کو قرضوں میں ریلیف اور تنظیم نو میں شامل کیا جانا چاہئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ رواں سال جنوری میں یو این سی ٹی اے ڈی کے اجلاس میں انہوں نے قرضوں میں ریلیف اور تشکیل نو سمیت ترقی پذیر ممالک کیلئے ہنگامی مالی معاونت، ایس ڈی آر کے قیام اور نئے سرے سے تقسیم، ترقی پذیر ممالک سے رقوم کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام اور بڑے پیمانے پر رعایتی مالی معاونت کی فراہمی کا پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ نئی ایس ڈی آرز میں 650 ارب ڈالر کی فراہمی کی آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امریکہ، چین، یورپی یونین اور جاپان سمیت بڑے شراکت داروں کی طرف سے اس کی حمایت کو سراہتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر ترقیاتی بینکوں کے پاس ترقی پذیر ممالک کیلئے رعایتی مالی معاونت بڑھانے کی مناسب گنجائش موجود ہے، انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے) کے آئندہ اجلاس میں اسے 60 ارب ڈالر تک بڑھایا جانا چاہئے، ترقی پذیر ممالک کو کم شرح سود پر مارکیٹ سے قرضے حاصل کرنے کے قابل بنایا جانا چاہئے اور اس مقصد کیلئے اقتصادی کمیشن برائے افریقہ کی طرف سے سرمائے اور پائیدار سہولت کی تجویز پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیکٹی پینل نے ترقی پذیر ممالک سے ٹریلینز ڈالر کی بیرون ملک منتقلی روکنے کیلئے 14 سفارشات پیش کی ہیں، اقوام متحدہ اور تمام مالیاتی اداروں کی طرف سے ان سفارشات کی توثیق کی جانی چاہئے، ترقی پذیر ممالک سے چوری شدہ اثاثے فوری اور غیر مشروط طور پر واپس ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ فیکٹی پینل سے خطاب کے دوران انہوں نے بڑی کارپوریشنوں کی طرف سے ٹیکس نہ دیئے جانے اور منافع کی منتقلی کے حوالہ سے عالمی سطح پر کم سے کم کارپوریٹ ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز دی تھی اور اس سلسلہ میں کارپوریٹ ٹیکس کے حوالہ سے امریکہ کی حالیہ تجویز کی توثیق کرتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے غیر مساوی اور استحصال پر مبنی معاہدوں کو منسوخ کیا جانا چاہئے یا ان پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کووڈ بحران کی وجہ سے جس چیلنج کا سامنا ہے اس کے حوالہ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ معاملات کو پہلے سے بہتر بنانے کا بھی ایک موقع ہے اور ہمیں عالمی معیشت کو ترقی یافتہ اور مالیاتی لحاظ سے پائیدار بنانے کے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دنیا میں سب سے کم کاربن کے اخراج والے ممالک میں شامل ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم موسمیاتی بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اگلے تین سال کے دوران 10 ارب درخت لگا کر پاکستان کو سرسبز بنانے کا ایک جامع پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ قابل تجدید توانائی، الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرانے اور کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھروں پر پابندی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو پیرس معاہدہ کے تحت اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالہ سے سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے چاہئیں اور اس میں سے 50 فیصد ترقی پذیر ممالک کی طرف سے شروع کئے جانے والے پروگراموں کیلئے دیئے جائیں،
اقوام متحدہ ایک سرسبز عالمی معیشت کیلئے منصوبے پر عملدرآمد میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں ہم اس وقت نازک موڑ پر کھڑے ہیں، کووڈ وبا کی وجہ سے انسانی آزادی متاثر ہوئی ہے، ہمیں طاقت کیلئے مخالفتیں اور جغرافیائی و سیاسی مقابلہ سے گریز کرنا چاہئے اور مل کر غیر مشروط طور پر ایک نئے، پرامن، مساوی اور پائیدار عالمی نظام کیلئے تعاون کرنا چاہئے