وزیراعظم عمران خان کا صف اول کے ٹیکس گزاروں میں تعریفی اسناد تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب

88
APP106-20 ISLAMABAD: February 20 - Prime Minister Imran Khan addressing the gathering during the ceremony in PM Office for distribution of awards among top tax payers of Pakistan. APP

اسلام آباد ۔ 20 فروری (اے پی پی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے سوچ بدلنا ہوگی، ٹیکس دینے والے ہمارے لئے وی آئی پیز ہیں، 17 لاکھ فائلر 21 کروڑ لوگوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، سارا بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عام لوگوں پر منتقل ہو جاتا ہے جو سراسر ظلم اور ناانصافی ہے، ایف بی آر کے نظام اور گورننس میں بہتری لا رہے ہیں جس سے کاروبار کرنے میں آسانی ہوگی اور ملک میں مزید سرمایہ کاری آئے گی۔ وہ بدھ کو صف اول کے ٹیکس گزاروں میں تعریفی اسناد تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے وی آئی پیز یہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور ملک چلتا ہے، ہم انہیں عزت اور احترام دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 70ءکی دہائی میں صنعتیں قومیانے کی پالیسی کے بعد ملک میں سرمایہ بنانا جرم بن گیا اور ایک خاص سوچ کے تحت سرمایہ کار کو برا بھلا کہا جاتا رہا جس سے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ اگر اس سوچ کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہمارے حالات مزید مشکل ہوتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ آج حالات مشکل ہیں جس کی مثال گیس کا شعبہ ہے جہاں خسارہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس شعبہ کو بینک بھی قرضہ دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ گیس کی قیمتیں نہ بڑھتیں تو گیس کمپنیاں بند ہو جاتیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں خود کو دنیا کے تناظر میں حالات کے مطابق تبدیل کرنا ہوگا، ملک میں ٹیکس گذاروں کی تعداد صرف 17 لاکھ ہے جو 21 کروڑ لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ٹیکس کلچر نہ ہونے کی وجہ سے سارا بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عام لوگوں پر منتقل ہو جاتا ہے جو سراسر ناانصافی ہے، حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کُفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا اور یہ ظلم کا نظام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں 72 ہزار ایسے لوگ ہیں جو دو لاکھ روپے سے زائد آمدن ظاہر کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے، یہ حکومتوں اور حکمران طبقے کا طرز عمل ہوتا ہے جسے دیکھ کر لوگ ٹیکس دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا پیسہ ذاتی عیاشیوں کی بجائے ملک پر خرچ ہوگا۔ اسکینڈنیویا کے ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس لے کر نچلے اور غریب طبقے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے لوگ اس کے تصور سے ناواقف ہیں حالانکہ یہ بڑا ماڈرن تصور ہے جس میں زکواة کا نظام متعارف کرایا گیا اور صاحب ثروت افراد سے پیسہ لے کر کمزور طبقے پر خرچ کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا ملک بھی اسلامی فلاحی ریاست کے تصور پر قائم ہوا لیکن آج ہم اس سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 17 لاکھ فائلرز ہیں۔ آج مغرب اس لئے آگے ہے کہ وہاں جانوروں تک کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر دریا کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو وہ اس کیلئے جوابدہ ہوں گے۔ آج مغرب کی فلاحی ریاستوں نے اسی تصور کو اپنایا ہے اور وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سونے والے غریب لوگوں کے لئے پناہ گاہیں قائم کی ہیں جن کی کسی کو فکر نہیں تھی۔ یہ ہے وہ نظام جس کی طرف ہم نے جانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ٹیکس کی شرح کو نہیں بڑھانا بلکہ ان لوگوں سے ٹیکس لینا ہے جو اس کے اہل ہیں۔ اس مقصد کے لئے ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دیں گے۔ ہماری حکومت نے اس حوالے سے اقدامات شروع کئے ہیں، ہم نے سادگی اختیار کی ہے اور خرچے کم کئے ہیں۔ وزارتوں سے کہا ہے کہ وہ 10، 10 فیصد تک خرچے کم کریں جبکہ وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات میں 30 فیصد کمی لائی جا چکی ہے۔ اس طرح اب تک 15 کروڑ روپے بچائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود اپنے گھر میں رہتے ہیں اور اپنے گھر کے اخراجات خود ادا کرتے ہیں، آج وزیراعظم کا کوئی کیمپ آفس نہیں ہے، پچھلے لوگوں نے پانچ پانچ کیمپ آفس قائم کر رکھے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گھروں کے تمام اخراجات ٹیکس گذاروں کے پیسے سے ادا کئے جاتے تھے۔ یہ لوگ قوم کے پیسے پر حکمران بنے ہوئے تھے اور آج بھی علاج بیرون ملک سے کراتے ہیں۔ وہ 30 سال تک اقتدار میں رہے لیکن کوئی ایسا ہسپتال نہیں بنایا جہاں وہ اپنا یا اپنے اہل خانہ کا علاج کروا سکیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکس کے پیسے پر کسی کو علاج کے لئے باہر نہیں بھیجا جائے گا، سب پاکستان میں علاج کروائیں تاکہ یہاں کے ہسپتال ٹھیک ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کا دو مرتبہ شوکت خانم میموریل ہسپتال میں علاج ہوا، ٹیکس کا پیسہ عیاشیوں کے لئے نہیں ہے، ہم نے اس حوالے سے خود مثال بننا ہے کیونکہ جب تک حکمران ٹیکس نہیں دیں گے ٹیکسوں کے پیسے کا درست استعمال نہیں کریں گے، اس وقت تک ٹیکس کلچر پروان نہیں چڑھ سکتا۔ عمران خان نے کہا کہ میں وہ خوش قسمت انسان ہوں جس نے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا اور لوگوں نے صرف شوکت خانم میموریل ہسپتال کے لئے چھ ارب روپے عطیہ کئے اور اسی ہسپتال میں 80 فیصد غریب لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اسی طرح نمل یونیورسٹی جہاں 90 فیصد غریب گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی کو بنانے اور چلانے کے لئے بھی قوم پیسے دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم تبھی پیسے دیتی ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ اس کا پیسہ ضائع یا چوری نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ایف بی آر میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ نظام کو ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے تاکہ ٹیکس گذاروں کو سہولت ہو۔ ابھی ہم مشکل سے ساڑھے چار ہزار ارب روپے ٹیکس ریونیو اکٹھا کرتے ہیں، میرا ایمان ہے کہ ہم پاکستان میں آٹھ ہزار ارب روپے تک ٹیکس اکٹھا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صنعتوں کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ملکی محصولات بڑھائی جا سکیں۔ امید ہے کہ جس طرح سرمایہ کار آ رہے ہیں اور ان کی سہولت کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اس سے ملک میں سرمایہ بڑھے گا۔ وزیراعظم نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری اس لئے لے کر آئے کہ یہاں بڑی صلاحیت اور مواقع موجود ہیں۔ جیسے جیسے ہم اپنا گورننس سسٹم ٹھیک کریں گے، اس سے ملک میں مزید سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ قبل ازیں وزیراعظم نے سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے والے ٹیکس گذاروں میں تعریفی اسناد تقسیم کیں۔