اسلام آباد ۔ 09اگست (اے پی پی) وزیراعظم عمران خان کا وژن میرٹ اور شفافیت پر مبنی کرپشن فری پاکستان ہے، موجودہ حکومت نے اس تناظر میں گذشتہ 2 سال کے دوران بلاتفریق احتساب کے عمل میں تیزی لانے اور ادارہ جاتی سطح پر بدعنوانی، اقرباء پروری کے خاتمہ کیلئے متعدد اصلاحات کی ہیں، پہلی بار شوگر مافیا کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی، بڑی اہم شخصیات کے خلاف احتساب کا گھیرا تنگ کیا گیا، احتساب کے تمام اداروں کو آزادانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا جس کے باعث نہ صرف عوام کی شکایات کا ازالہ ہوا بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک مثبت تشخص اجاگر ہوا، موجودہ حکومت نے فٹیف کی ہدایات کے تناظر میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے جامع قانون سازی کی، شوگر کمیشن کی انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لا کر ذمہ داروں کا تعین کیا گیا اور نیب اور ایف آئی اے سمیت مختلف اداروں کو کارروائی کیلئے یہ رپورٹ بھیجی گئی۔ گندم اور آٹا سکینڈل کی بنیاد پر بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق بدعنوانی میں ملوث محکمہ خوراک پنجاب کے 25 ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز سمیت 155 ملازمین کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جبکہ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے سیکنڈل میں ملوث ملز مالکان سے 20 کروڑ روپے سے زائد وصول کر لئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 148 فلور ملز نے سبسڈی لے کر اس کے ثمرات عوام کو منتقل نہیں کئے۔ ان فلور ملز نے آ ٹا بنا نے کے بجائے زیادہ قیمت پر گندم مارکیٹ میں بیچی۔ نیب ملک میں انسداد بدعنوانی کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان، ورلڈ اکنامک فورم، پلڈاٹ اور مشال پاکستان نے انسداد بدعنوانی کی ایک مو ¿ثر اور فعال حکمت عملی کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح گیلانی اور گیلپ کے حالیہ سروے میں کے مطابق پاکستان کے 59 فیصد لوگوں کو نیب پر پورا پورا اعتماد ہے۔ نیب کی فعال انسداد بدعنوانی کی حکمت عملی کے باعث نیب کی مجموعی طور پر سزا کا تناسب تقریباً 68.8 فیصد ہے جو دنیا میں وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات میں ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ نیب کی اصل توجہ بدعنوانی جیسے منی لانڈرنگ ، بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکہ دہی کے واقعات ، بینک فراڈ ، جان بوجھ کر بینک قرض نادہندگی، اختیارات کا غلط استعمال اور سرکاری فنڈز کے غبن پر مرکوزہے۔ نیب نے پہلی بار بڑی شخصیات جیسے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزراء اعظم محمد نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، سیّد یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ، سابق وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سمیت دیگر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی ہے۔ نیب کو 2019ء میں مجموعی طور پر 53643 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 42760 پراسس کی گئیں جبکہ 2018ء میں 48591 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 4141 کو نمٹایا گیا۔ نیب کو شکایات کی تعدا میں اضافہ نیب پر اعتماد کا اظہار ہے۔ نیب نے 2019ء میں 1308 شکایات کی جانچ پڑتال کی۔ 1686 انکوائریاں اور 609 انویسٹی گیشنز نمٹائی گئیں اور بدعنوان عناصر سے 141.542 ارب روپے وصول کئے گئے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ 2019ء میں پاکستان کا سی پی آئی سکور 100 میں سے 32 تھاجبکہ درجہ بندی میں180 ممالک میں سے 120واں نمبر تھا۔ حکومت سپریم کورٹ کی ہدایات کے تناظر میں احتساب آرڈیننس 1999ء میں بہتری کیلئے تمام متعلقہ فریقوں کی مشاورت سے اقدامات کر رہی ہے۔ حکومت نے سرکاری اداروں کے خلاف شکایت کے فوری ازالہ کیلئے وزیراعظم سٹیزن پورٹل پاکستان قائم کیا جس پر لاکھوں افراد نے مختلف سرکاری اداروں کے خلاف اپنی شکایات درج کرائیں۔ اس پورٹل پر شکایات کو نمٹانے کی شکایات 98 فیصد ہے۔ اسی طرح وفاقی محتسب لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے مو ¿ثر اقدامات کر رہا ہے۔ وفاقی محتسب نے 2019ء کے دوران75,000 شکایات نمٹائیں جبکہ 97 فیصد فیصلوں پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔ فیڈرل ٹیکس محتسب نے 2019ئ کے دوران3,171 میں سے2,633 مقدمات نمٹائے ہیں۔ بینکنگ محتسب نے 2019ئ میں 15,639 کیسز میں سے 10,324 نمٹائے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ احتساب کے ادارے جتنے زیادہ فعال ہوں گے اتنے ہی زیادہ قومی وسائل بچانے میں مدد ملے گی، بدعنوانی کم ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان بار بار اس عزم کا اعادہ کر رہے ہیں کہ کسی بدعنوان فرد کو این آر او نہیں ملے گی، یہی نعرہ ان کی 22 سالہ جدوجہد کا محور بھی ہے جس پر اب بھی وہ قائم ہیں۔ احتساب کے ساتھ ساتھ اصلاحات بھی پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوری بعد ادارہ جاتی اصلاحات کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کی ہے۔