وزیراعظم عمران خان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

197
APP45-28 ISLAMABAD: 28 February – Prime Minister Imran Khan addressing at the Joint Session of Parliament. APP

اسلام آباد ۔ 28 فروری (اے پی پی) وزیراعظم عمران خان نے امن کی علامت کے طور پر بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سارا تنازعہ کشمیر کی وجہ سے ہے، نریندر مودی اور ہندوستان کو ہمارا پیغام ہے کہ وہ انتہا کی طرف معاملات کو نہ لے جائیں، انہیں اب اس سے آگے نہیں جانا چاہیے، ہندوستان جو بھی کرے گا پاکستان اس کا جواب دینے کے لئے مجبور ہو گا، پاکستان اور بھارت کے پاس جس طرح کے ہتھیار ہیں اس میں تو جنگ کا سوچنا بھی نہیں چاہیے، ہماری فوج بہترین جنگ لڑنے والی فوج ہے، ثبوت دینے کی بجائے بھارت میں جنگی جنون کو پروان چڑھایا گیا، ہندوستان کی مجبوری ہے کہ وہ انتخابات کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرے،کشیدگی کم کرنے کی ہماری خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، بھارت نے پلوامہ حملے سے متعلق ڈوزیئر پاکستان کے خلاف جارحیت، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر نے کے بعد بھیجا،کشمیریوں کی اپنی تحریک بھارتی تشدد کی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہے، بھارت کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کشمیری نوجوان اس انتہا کیوں پہنچ گیا کہ اس کے اندر موت کا خوف بھی نہیں رہا، بھارت ظلم و جبر سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا،امید ہے عالمی برادری بھی کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی، ہمارے میڈیا نے اس صورتحال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، بھارت کے میڈیا نے بھی 70 ہزار ہلاکتیں دیکھی ہوتیں تو اس طرح کا جنگی جنون نہ پھیلاتا ۔جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں پارلیمان میں جس اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا وہ قابل تحسین ہے ۔موجودہ وقت لاحق بیرونی خطرات میں پوری پاکستانی قوم متحد ہے، 26 جولائی کو بھی انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان اگر ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ غربت برصغیر میں پائی جاتی ہے اور کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے تھوڑے سے لوگ امیر اور غریبوں کا ایک سمندر ہو۔ انہوں نے کہا کہ چین نے بھی اپنے 70 کروڑ عوام کو خط غربت سے نکالا ہے اور اس نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کو اس مقصد کے لئے خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا ہے، پچھلے پندرہ سال میں ہم نے دیکھا کہ امریکا جو دنیا کی بڑی فوجی طاقت ہے، نے افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کئے جبکہ چین نے اپنے بنیادی ڈھانچے اور ریل کے نظام کو بہتر کیا ہے، آگے بڑھنے کے لئے امن اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے، ہم نے پہلے بھی اس کی پیشکش کی پھر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو خط بھی تحریر کیا لیکن ہمیں اس کا مثبت جواب نہیں ملا اور ہم نے محسوس کیا کہ وہاں پر چونکہ انتخابات ہونے والے ہیں اس وجہ سے مثبت جواب نہیں مل رہا، الیکشن کے بعد اس پر آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ کیا تاکہ کشیدگی میں کمی آئے لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی وہاں سے ایسے بیانات آئے کہ بات آگے نہیں بڑھ سکی اور ہمیں خدشہ تھا کہ بھارت میں الیکشن سے قبل کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو گا جسے انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پلوامہ میں ہونے والے واقعہ کے بارے میں میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں بھارت کا اپنا ہاتھ ہے لیکن اس واقعہ کے آدھ گھنٹے بعد بھارت میں پاکستان پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں، ایسے حالات میں جبکہ سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر آ رہے تھے اور یہاں پر ایک بڑی سرمایہ کاری کے لئے پیش رفت ہونے والی تھی، کونسا ملک اپنے ہاں اتنی بڑی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کر سکتا ہے، اس سے پاکستان کوکیا ملنا تھا۔ اس کے باوجود فوری طور پر بھارت سے کہا کہ وہ ہمیں قابل عمل معلومات فراہم کرے، ہم اس پر کارروائی کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کئے ہوئے ہیں، کسی مسلح ملیشیاءکو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے دے گا اور نہ مسلح گروپوں کو یہاں کام کرنے کی اجازت ہو گی لیکن بدقسمتی سے ہمیں ثبوت دینے کی بجائے بھارت میں جنگی جنون کو پروان چڑھایا گیا۔ وزیراعظم نے پاکستانی میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے میڈیا نے اس صورتحال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا نے پچھلے 15 سال میں مشاہدہ کیا ہے کہ یہاں بم دھماکوں سے کتنی تباہی ہوئی ہے، کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور کتنا نقصان ہوا ہے، اسی لئے اس نے جنگی جنون پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ واقعہ کے بعد ہمیں یہ شک ہونا شروع ہو گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ پاکستان میں کیا جائے گا، میں نے بھی یہ واضح کیا تھا کہ اگر کوئی کارروائی کی گئی تو ہم اس کا جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ واقعہ کے حوالے سے بھارت نے آج ڈوزیئر بھیجا ہے لیکن اس سے پہلے اس نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر دی، اگر پہلے ڈوزیئر دیتے اور پاکستان کارروائی نہ کرتا تو پھر اس پر بات کی جاتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان کی مجبوری ہے کہ وہ انتخابات کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کریں، افغانستان میں پہلی مرتبہ مذاکرات سے مسئلہ حل ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے، دوسری طرف ہندوستان سے دھمکیاں مل رہی ہیں، اس دن ساڑھے تین بجے ہمیں حملے کا علم ہوا، آرمی چیف سے بھی اس پر بات ہوئی کہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ذمہ دارانہ ریاست کے طور پر ایکشن نہیں لیا لیکن یہ دکھانے کے لئے کہ ہمارے پاس صلاحیت موجود ہے اور ہم بھی کارروائی کر سکتے ہیں، ہمیں کسی قسم کا کوئی خوف یا ڈر نہیں ہے، ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جس طرح جنگ لڑی ہے، اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہماری فوج بہترین جنگ لڑنے والی فوج ہے، پوری پاکستانی قوم متحد ہے، وزیر خارجہ نے بھی دوسرے ممالک کے وزراءخارجہ سے بات کی ہے تاکہ کشیدگی میں کمی آئے، پاکستان اور بھارت کے درمیان سارا مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہے، ہندوستان کے عوام کو اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور ظلم و جبر سے وہ کشمیری لوگوں کو کیسے زیر نگین رکھ سکتی ہے، کشمیریوں کی اپنی تحریک تشدد کی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہے اور آزادی کے سوا کشمیری کوئی بات سننے کو تیار نہیں، بھارت کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کشمیری نوجوان اس انتہا کیوں پہنچ گیا ہے کہ اس کے اندر موت کا خوف بھی نہیں رہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے کسی ثبوت کے بغیر پاکستان پر انگلی اٹھائی ہے، بھارت ظلم و جبر سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا، بھارت میں بھی اس حوالے سے بحث کی ضرورت ہے، اگر بھارتی ظلم و جبر کی وجہ سے کشمیر میں صورتحال اور خراب ہوئی تو کیا اس کا بھی الزام پاکستان پر لگایا جائے گا، ہندوستان دہشت گردی کے لئے اسلامی انتہا پسندی کا نام استعمال کر رہا ہے حالانکہ نائن الیون سے پہلے سب سے زیادہ حملے تامل ٹائیگرز نے کئے، بھارت کے عوام بھی اپنی حکومت کے جنگی جنون سے مطمئن نہیں ہیں، اگر بھارت کے میڈیا نے بھی 70 ہزار ہلاکتیں دیکھی ہوتی تو وہ بھی اس طرح کا جنگی جنون نہ پھیلاتا، پاکستان اور بھارت کے پاس جس طرح کے ہتھیار ہیں اس میں تو جنگ کا سوچنے بھی نہیں چاہیے، غلط اندازوں کی وجہ سے دنیا میں کئی ملک تباہ ہوئے ہیں، افغانستان میں بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ اتنی بڑی فوجی قوت کے باوجود وہ مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں، جنگ مسائل کا حل نہیں، بھارت ایکشن لیتا ہے تو پھر جواب دینا ہماری بھی مجبوری ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نیوکلیئر بلیک میلنگ کر رہا ہے، اس کا کیا مطلب ہے، ہم سب کے سامنے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، ہم خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں اور عوام کو غربت سے نکالنا چاہتے ہیں، امن سے ہی سرمایہ کاری آتی ہے اور غربت کا خاتمہ ہوتا ہے، کشیدگی سے پاکستان اور بھارت کو فائدہ نہیں ہو گا، کل بھی بھارتی وزیراعظم سے بات کرنے کی کوشش کی، ترکی کے صدر سے بھی بات ہوئی ہے لیکن کشیدگی کم کرنے کی ہماری خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، اس حوالے سے کسی قسم کا غلط سگنل نہیں ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان مسلمان بادشاہ تھے، بہادر شاہ ظفر نے غلامی کا انتخاب کیا اور ٹیپو سلطان نے غلامی کی بجائے آزادی سے لڑنے کو ترجیح دی، اس ملک کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے، اگر ایک قوم کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ اسے اپنی بقاءکا فیصلہ کرنا پڑے تو غیرت مند قوم آزادی کے لئے لڑے گی، نریندر مودی اور ہندوستان کو ہمارا پیغام ہے کہ وہ انتہا کی طرف معاملات کو نہ لے جائیں، کل بھی میزائل حملے کا خدشہ تھا، اس کے جواب کے لئے ہماری مسلح افواج پوری طرح تیار تھیں، ہندوستان کو اس سے آگے اب نہیں جانا چاہیے، ہندوستان جو بھی کرے گا پاکستان اس کا جواب دینے کے لئے مجبور ہو گا، ہمیں امید ہے کہ عالمی برادری بھی کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کا ایک پائلٹ ہمارے پاس ہے اور امن کی علامت کے طور پر کل اس کو رہا کر دیا جائے گا۔