وزیراعظم کی معاون خصوصی اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ کے ہمراہ پریس بریفنگ

134

اسلام آباد ۔ 31 اکتوبر (اے پی پی) وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن احتجاجی مارچ کو اپوزیشن کا احتجاجی مارچ بنانے میں ناکام رہے ہیں ‘ کچھ عناصر مولانا فضل الرحمن کا کندھا استعمال کرکے حکومت کو ہدف بنانا چاہتے تھے، ہم جمہوری لوگ ہیں اسی بنا پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کے احتجاجی مارچ کو نہیں روکیں گے’ ہر قیمت پر عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ جمعرات کو یہاں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں، 2016ء میں پی ٹی آئی اے کے احتجاجی مارچ میں خیبر پختونخوا سے آنے والے مظاہرین کو اسلام آباد آنے سے روکا گیا لیکن موجودہ حکومت نے احتجاجی مارچ کے شرکاء کو سہولیات دینے کا فیصلہ کیا ہے، احتجاجی مارچ کے حوالے سے فریقین کی بیان بازی کے باعث حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی تنائومیں اضافہ ہوگیا تھا۔ وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ احتجاجی مارچ کو نہیں روکیں گے۔ انہوںنے کہا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، اپوزیشن سے بات چیت کے لئے حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی اورہم نے احتجاج کرنے والوں کو مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی سیکیورٹی سے متعلق اطلاعات کی بنا پر خطرات سے بھی آگاہ کیا ہے، احتجاجی مظاہرین اور اسلام آباد انتظامیہ کے درمیان ضابطہ اخلاق پر بھی دستخط ہو چکے ہیں ‘ ضابطہ اخلاق میں 37 نکات ایسے ہیں جن پر اپوزیشن نے اتفاق کیا ہے، حکومت نے وعدے کے مطابق احتجاجی مظاہرین کو کہیں بھی نہیں روکا، پنجاب اور سندھ سے آنے والا قافلہ روات’ فیض آباد اور نائیتھ ایونیو سے اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے مہنگے کنٹینر کے لئے الگ روٹ فراہم کیا ہے تاکہ انہیں کوئی پریشانی پیش نہ آئے ، کوہاٹ اور جنوبی اضلاع سے آنے والے قافلے خوشحال گڑھ پل سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد آئیں گے اور خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلے رشکئی انٹرچینج سے اسلام آباد آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تین اے پی سی ہوئیں لیکن مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے مطالبات سے آگاہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرکے ایک مناسب اتفاق رائے پیدا کیا۔ ڈی چوک میں جلسوں کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ان کو پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کا آپشن دیا گیا لیکن انہوں نے پشاور موڑ میں جلسہ کرنے پر اتفاق کیا، حکومت نے خیر سگالی کے طور پر اس تجویز سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کی مقامی قیادت اور اسلام آباد انتظامیہ نے ملکر جلسے کے انتظامات کئے ہیں’ جلسے کے مقام پر تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئیں ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ امید ہے کہ وہ اپنے معاہدے پر قائم رہیں گے اور ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں گے۔ جلسہ کے شرکاء کو تنگ نہیں کریں گے تاہم ان کے جلسے اور مولانا فضل الرحمن کی سیکورٹی کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جاچکے ہیں، جلسہ گاہ کی اندرونی سیکورٹی ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سیکورٹی کے پہلے حصہ میں پولیس ‘ دوسرے میں رینجرز اور تیسرے میں فوج ہوگی ‘ کوشش ہے کہ کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو اور ہمیں پولیس بھی استعمال نہ کرنا پڑے۔ قبل ازیں وزیراعظم کی معاون خصوصی اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جمہوری روایات کے مدنظر سیاسی احتجاج کی اجازت دی’سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنے میں ہمیں کوئی دقت نہیں’ احتجاج کرنے والوں کو خیال رکھنا ہوگا کہ ان کی کسی حرکت سے پاکستان کے تشخص پر آنچ نہ آئے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اسلام آباد میں مختلف سفارتخانوں کے 7ہزار افراد کی سیکورٹی حکومت کی ذمہ داری ہے’ ماضی میں میریٹ پر حملے کے بعد اقوام متحدہ نے پاکستان کو نان فیملی سٹیشن قرار دیا تھا لیکن بعد میں اقوام متحدہ نے اسلام آباد کے لئے فیملی سٹیشن کا درجہ بحال کردیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوششوں سے ملک میں امن و امان بحال ہوا ہے، ہم سیاسی میدان کے کھلاڑی ہیں ‘سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنے میں ہمیں کوئی دقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جمہوری روایات کے مدنظر سیاسی احتجاج کی اجازت دی’ احتجاج کرنے والوں کو خیال رکھنا ہوگا کہ ان کی کسی حرکت سے پاکستان کے تشخص پر آنچ نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی بیانیہ میں کوئی جان نہیں ہے، پرامن مارچ کا حق حکومت نے تسلیم کیا ہے تاہم امید کرتے ہیں کہ احتجاج کرنے والوں نے جو وعدے کئے ہیں ان کی پاسداری کی جائے گی۔